فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ ۖ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ
غرض کہ شیطان (اس طرح کی باتیں سنا سنا کر بالآخر) انہیں فریب میں لے آیا، پھر جونہی ایسا ہوا کہ انہوں نے درخت کا پھل چکھا ان کے ستر ان پر کھل گئے اور (جب انہیں اپنی برہنگی دیکھ کر شرم محسوس ہوئی تو) باغ کے پتے اوپر تلے رکھ کر اپنے جسم پر چپکانے لگے۔ اس وقت ان کے پروردگار نے پکارا، کیا میں نے تمہیں اس درخت سے نہیں روک دیا تھا۔ اور کیا میں نے نہیں کہہ دیا تھا کہ شطیان تمہارا کھلا دشمن ہے۔
(13) شیطان نے دونوں کو دھوکہ دے کر بلندی سے پستی میں پہنچا دیا، اس کی تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ اس نے ان دونوں کو ارتکاب معصیت کی ہمت دلائی، چناچہ جب انہوں نے اس شجرہ ممنوعہ کو شیطان کے دھو کے میں آکر کھالیا، تو اس نافرمانی کا انجام فوراہی ان کے سامنے آگیا کہ ان کے لباس ان کے جسموں سے الگ ہوگئے، اور انہیں اپنی شرمگا ہیں نظر آنے لگیں، تو جنت کے درختوں کے پتے لے لے کر اپنے جسموں پر چپکانے لگے تاکہ اپنی پردہ پوشی کریں، تب اللہ نے بطور عتاب ان سے کہا، کیا میں نے تمہیں اس درخت کے کھانے سے نہیں روکا تھا، اور کہا نہیں تھا کہ شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے ؟ اس وقت انہوں نے اپنی غلطی کا اللہ کو حضور ااعتراف کیا، اور اللہ نے انہیں سکھایا کہ اپنی غلطی کی معافی کے لیے یہ دعا کریں : İقَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ Ĭبعض مفسرین نے لکھا ہے کہ آدم (علیہ السلام) کے اندر پانچ خوبیاں پائی گئیں : انہوں نے اپنے گناہ کا اعتراف کیا، اس پر نادم ہوئے، اپنے نفس کی ملامت کی، فورا توبہ کی، اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہوئے۔ اور ابلیس میں پانچ برائیاں پائی گئیں : اپنے گناہ کا اعتراف نہیں کیا، اس پر نادم نہیں ہوا، اپنے نفس کی ملامت نہیں کی، بلکہ اپنے رب پر اعتراض کیا، اور توبہ نہیں کی، اور اللہ کی رحمت سے ناامید ہوگیا۔