وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنكُمْ وَأَنتُم مُّعْرِضُونَ
اور پھر (وہ وقت) یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا (وہ عہد کیا تھا؟ کیا اسرائیلیت کے گھمنڈ اور یہودی گروہ بندی کی نجات یافتگی کا عہد تھا؟ نہیں، ایمان و عمل کا عہد تھا) اللہ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا، عزیزوں قریبوں کے ساتھ نیکی سے پیش آنا، یتیموں مسکینوں کی خبر گیری کرنا، تمام انسانوں سے اچھا برتاؤ کرنا، نماز قائم کرنی، زکوۃ ادا کرنی (ایمان و عمل کی یہی بنیادی سچائیاں ہیں جن کا تم سے عہد لیا گیا تھا) لیکن تم اس عہد پر قائم نہیں رہے) ایک تھوڑی تعداد کے سوا سب الٹی چال چلے، اور حقیقت یہ ہے کہ (ہدایت کی طرف سے) تمہارے رخ ہی پھرے ہوئے ہیں
129: یہاں نبی کریم (ﷺ) کے زمانہ کے یہودیوں کو وہ باتیں یاد دلائی جا رہی ہیں جن کا اللہ نے ان کے آباء واجداد کو حکم دیا تھا، اور جن کے کرنے کے لیے ان سے عہد و پیمان لیا تھا، لیکن وہ ایسی سخت دل قوم تھی کہ اس نے کبھی بھی کسی عہد و پیمان کا خیال نہ رکھا، اور سوائے چند لوگوں کے پوری قوم نے بد عہدی کی۔ 130: اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے اس بات کا عہد لیا تھا کہ وہ صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ دوسروں کو عبادت میں شریک نہ بنائیں گے۔ اور اس بات کا عہد لیا تھا کہ والدین کے ساتھ احسان و اکرام کا سلوک کریں گے اس میں والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی خدمت و اطاعت کی تمام صورتیں داخل ہیں۔ اور غایت درجہ کی تاکید پیدا کرنے کے لیے اللہ نے توحید اور شرک سے براءت کا حکم دینے کے بعد، والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کسی کام کا حکم دینا اس کی ضد سے ممانعت کو شامل ہوتا ہے، جب والدین کے ساتھ احسان کا حکم دیا گیا تو گویا اس کی ضد ان کے ساتھ بد سلوکی سے منع کیا گیا جو جرمِ عظیم ہے، اور ان کے ساتھ حسن سلوک چھوڑ دینے سے بھی منع کیا گیا جو حرام ہے اور یہی بات رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں کے بارے میں بھی کہی جائے گی کہ ان کے ساتھ بدسلوکی جرم اور ترک حسن سلوک حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بھی سورۃ نساء میں ایسا ہی حکم دیا ہے، فرمایا: İوَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئاً وَبِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً وَبِذِي الْقُرْبى وَالْيَتامى وَالْمَساكِينِ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى وَالْجارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَما مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ مَنْ كانَ مُخْتالاً فَخُوراًĬ (النساء :36)۔ اور اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں، اور رشتہ دار پڑوسی، اور اجنبی پڑوسی کے ساتھ، اور پہلو سے لگے ہوئے دوست، اور مسافر، اور غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ، بے شک اللہ اکڑنے والے اور بڑا بننے والے کو پسند نہیں کرتا۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امت اسلامیہ نے ان عہود و مواثیق کا دوسری امتوں کے مقابلے میں زیادہ خیال کیا، صحیحین میں عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت ہے، میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے پوچھا کہ کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا : وقت پر نماز ادا کرنا، میں نے پوچھا پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا : والدین کے ساتھ حسن سلوک، میں نے پوچھا پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ ایک دوسری صحیح حدیث میں ہے، ایک آدمی نے رسول اللہ (ﷺ) سے پوچھا کہ میں کس کے ساتھ حسن سلوک کرو؟ تو آپ نے فرمایا : اپنی ماں کے ساتھ، کہا : پھر کس کے ساتھ؟ آپ نے فرمایا : اپنی ماں کے ساتھ، کہا : پھر کس کے ساتھ؟ آپ نے فرمایا : اپنے باپ کے ساتھ، پھر بالترتیب جو تمہارے قریبی رشتہ دار ہوں۔ 131: یتیم اسے کہتے ہیں جس کا باپ بلوغت سے پہلے مر چکا ہو، آیت میں یتیم کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم دیا گیا ہے، اور یہ شرط نہیں لگائی گئی ہے کہ وہ فقیر و محتاج ہو، معلوم ہوا کہ اس میں ہر یتیم داخل ہے، (مسکین) سے مراد وہ ہے جو کسب معاش سے عاجز ہو۔ 132: لوگوں کے ساتھ اچھی بات کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ امام حسن بصری کہتے ہیں کہ اس میں لوگوں کو اچھائی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا بدرجہ اولی شامل ہے، کلمہ (الناس) سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس حکم میں سبھی لوگ حتی کہ کفار بھی شریک ہیں۔ اگر مخاطب مسلمان ہے تو اسے سلام کیا جائے اور ہنستے چہرے کے ساتھ بات کی جائے اور اگر کافر ہے تب بھی اس کے ساتھ اچھے انداز میں گفتگو کی جائے، کیونکہ مسلمان بد زبان، گالی گلوچ دینے والا اور جھگڑا لو نہیں ہوتا، رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا ہے، چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی حقیر نہ جانو، چاہے نیکی یہی ہو کہ تم اپنے بھائی کے ساتھ مسکراتے چہرے کے ساتھ ملو، (مسلم، ترمذی) 133: بنی اسرائیل نے نقض عہد کیا اور مذکورہ اعمالِ صالحہ کی ادائیگی میں ناکام رہے، سوائے چند لوگوں کے جنہوں نے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کی، جیسے عبداللہ بن سلام اور ان کے وہ ساتھی جو رسول اللہ (ﷺ) پر ایمان لے آئے تھے۔ اس میں غالبا اس حکمت کا بیان بھی مقصود ہے کہ کسی قوم میں چند صالح افراد کا وجود عذاب الٰہی سے مانع نہیں ہوتا۔ 134: یہود کی بری عادت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ کی اطاعت سے اعراض اور اس سے کیے گئے عہد و پیمان کو توڑنا ان کی سرشت میں داخل ہے