أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا ۚ وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِّن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ
(اے پیغمبر ! ان لوگوں سے کہو کہ) کیا میں اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو فیصل بناؤں، حالانکہ اسی نے تمہاری طرف یہ کتاب نازل کرکے بھیجی ہے جس میں سارے (متنازعہ) معاملات کی تفصیل موجود ہے؟ اور جن لوگوں کو ہم نے پہلے کتاب دی تھی وہ یقین سے جانتے ہیں کہ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے حق لے کر نازل ہوئی ہے۔ لہذا تم شک کرنے والوں میں ہرگز شامل نہ ہونا۔
(111) یہ استفہام انکار ہے، بعض مشرکین مکہ کی تردید کرنے کے لیے سوالیہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے، آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اے محمد (ﷺ) ! آپ مشرکوں سے کہہ دیجئے کہ میں کیسے گم گشتہ راہ بن جاؤں، اور اللہ کے علاوہ کسی اور کو اپنے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرنے والا مان لوں؟ دراصل یہ جواب تھا کفار قریش کے سوال کا کہ اے محمد ! ہم اپنے بتوں پر تمہاری تنقیدوں سے تنگ آچکے ہیں، اس لیے ہمارے اور تمہارے درمیان حکم اور فیصل بناؤ جو ہمارا فیصلہ کرے، تو اللہ نے اپنے نبی سے کہا، آپ انہیں جواب دیں کہ کیا میں اللہ کے علاوہ کسی اور طاغوت کو اپنا حکم مان لوں، جبکہ اللہ نے تمہاری ہدا یت کے لئے وہ قرآن اتارا ہے جس میں حق وباطل اور حرام سب کچھ بیان کردیا گیا ہے۔ اور اہل کتاب تو خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کتاب منزل من اللہ ہے، اس لیے کہ تمام انبیاء نے اس قرآن کی بشارت دی ہے، اور اس لیے کہ قرآن، تورات و انجیل کی تصدیق کرتا ہے، اس لیے اے نبی ! کفارقریش کے انکار کیوجہ سے آپ اس قرآن کے منزل من اللہ ہونے میں شبہ نہ کریں۔