وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ۚ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ
اور (جس طرح یہ لوگ ہمارے نبی سے دشمنی کر رہے ہیں) اسی طرح ہم نے ہر (پچھلے) نبی کے لیے کوئی نہ کوئی دشمن پیدا کیا تھا، یعنی انسانوں اور جنات میں سے شیطان قسم کے لوگ، جو دھوکا دینے کی خاطر ایک دوسرے کو بڑی چکنی چپڑی باتیں سکھاتے رہتے تھے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرسکتے۔ (٥١) لہذا ان کو اپنی افترا پردازیوں میں پڑا رہنے دو۔
(109) مشرکین مکہ کی عداوتوں سے کبھی کبھار رسول اللہ (ﷺ) دل برداشتہ ہوجاتے تھے تو اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی ان کی دل دہی کرتا تھا، اس آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالی نے اپنے نبی کریم (ﷺ) کو خطاب کرکے فرمایا : ہم نے جس طرح آپ کے دشمن پیدا کئے ہیں جو آپ کی مخالفت کے درپے ہیں، اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے کے تمام انبیاء کے بھی دشمن پیدا کئے تھے، جو انسانوں اور جنوں کے اشرار ہوتے تھے، اور جو لوگوں کو دھو کہ دینے کے لیے ناحق کو حق بنا کر پیش کرتے تھے، اس لیے آپ پر یشان نہ ہوں، اگر اللہ چاہتا تو یہ شیاطین جن وانس آپ کی اورگذشتہ انبیاء کی مخالفت نہ کرتے، آپ انہیں چھوڑ دیجئے تاکہ مزید افترا پردازی کرتے رہیں، انہیں عنقریب اپنا انجام بد معلوم ہوجائے گا۔ مسند احمد میں ابو مامہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا "اے ابوذر ! اللہ کے ذریعہ جن و انس کے شیاطین کے شر سے پناہ مانگو، ابو ذر (رض) نے کہا، اے اللہ کے نبی، کیا انسانوں کے بھی شیا طین ہوتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا ہا ں، انس و جن کے شیا طین ایک دوسرے کو ملمع کو ہوئی بات لوگوں کہ دھوکہ دینے کے لے پہنچاتے رہتے ہیں۔