بَلَىٰ مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
نہیں (آخرت کی نجات کسی ایک گروہ ہی کی میراث نہیں ہے کہ ہر حال میں اسی کے لیے ہو۔ خدا کا قانون تو یہ ہے کہ کوئی انسان ہو اور کسی گروہ کا ہو، لیکن) جس کسی نے بھی اپنے کاموں سے برائی کمائی اور اس کے گناہوں نے اسے گھیرے میں لے لیا، تو وہ دوزخی گروہ میں سے ہے۔ ہمیشہ دوزخ میں رہنے والا
127: اس آیت میں ان کے گذشتہ دعوی کی تردید ہے کہ وہ آگ میں ہمیشہ کے لیے نہیں رہیں گے۔ اللہ نے فرمایا کہ جس آدمی کے گناہ اسے ہر چہار جانب سے گھیرے میں لے لیں، حتی کہ اس کے پاس کوئی نیکی باقی نہ رہے تو اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا، جہاں وہ ہمیشہ کے لیے رہے گا، اور یہی حال یہود کا ہے ان کے گناہوں نے بھی انہیں ہر طرف سے گھیر لیا، اس لیے وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے۔ اس آیت کریمہ میں سیئۃ اور خطیئۃ سے مراد شرک اور کفر ہے، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ آیت یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ دوسری دلیل اللہ کا قول İوَأَحاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُĬہے، یعنی جس کے گناہوں نے اسے گھیر لیا ہو، اور یہ گناہ شرک ہے، اس لیے کہ مؤمن و موحد کا گناہ اسے ہر چہار جانب سے احاطہ نہیں کرپاتا، اسی لیے اہل سنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ جہنم میں ہمیشہ کے لیے صرف کافرو مشرک ہی رہیں گے، گناہ گار موحدین جہنم سے نکال دئیے جائیں گے، نبی کریم (ﷺ) کی سنت سے یہی ثابت ہے۔