أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ ۗ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا ۖ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْعَالَمِينَ
یہ لوگ (جن کا ذکر اوپر ہوا) وہ تھے جن کو اللہ نے (مخالفین کے رویے پر صبر کرنے کی) ہدایت کی تھی، لہذا (اے پیغمبر) تم بھی انہی کے راستے پر چلو۔ (مخالفین سے) کہہ دو کہ میں تم سے اس (دعوت) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ یہ تو دنیا جہان کے سب لوگوں کے لیے ایک نصیحت ہے، اور بس۔
نبی کریم (ﷺ) کو خطاب کرکے کہا جارہا ہے کہ آپ انہی مذکورہ بالا انبیاء کی اقتدا کریں، کیونکہ اللہ نے انہیں ایمان باللہ توحید خالص، اخلاق حمیدہ اور اللہ کو راضی کرنے والے اعمال کی تو فیق دی تھی۔ شوکانی لکھتے ہیں : یہ آیت دلیل ہے کہ ابتدائے اسلام میں جن معاملات کے بارے میں قرآن میں کوئی نص نازل نہیں ہو اتھا، ان کے بارے میں نبی کریم (ﷺ) کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ گذشتہ انبیاء کی پیروی کریں، اس کے بعد آپ (ﷺ) کو حکم دیا گیا کہ آپ کفار قریش سے کہہ دیجئے کہ میں تم لوگوں سے قرآن کریم کی تعلیم پر کوئی اجرت نہیں مانگتا ہوں۔ کیونکہ یہ تو رہتی دنیا تک تمام جہان کے لیے اللہ کی طرف سے نصیحت کا خزانہ ہے۔ علمائے تفسیر نے لکھا ہے : یہ آیت دلیل ہے کہ نبی İﷺĬ تمام جنوں اور انسانوں کے لیے رسول بناکر بھیجے گئے تھے۔ اور İقُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًاĬ سےفقہاء نےاستدلال کیا ہے کہ تعلیم اور تبلیغ احکام پر اجرت لینی جا ئز ہے، اور صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباس (رض) سے اس آدمی کا قصہ مروی ہے جسے سانپ نے ڈس لیا تھا، اور جس پر ایک صحابی نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر پھونکا تو اس کا زہر اتر گیا تھا، اس واقعہ میں یہ بھی مروی ہے کہ جب انہوں نے رسول اللہ (ﷺ) کو یہ بتایا کہ اس آدمی کے قبیلہ والوں نے صحابہ کرام کو بکریاں دی ہیں، تو آپ نے فرمایا : İإن أحق ما أخذتم عليه أجرا، كتاب الله، أصبتم اقتسموا، واضربوا لي معكم سهماĬکہ سب سے اچھا کام جس پر تم اجرت لو اللہ کی کتاب ہے تم نے اچھا کیا، حصہ لگاؤ اور میرا حصہ بھی رکھو، امام شوکانی لکھتے ہیں کہ رسول اللہ İﷺĬ کا یہ قول عام ہے جو تعلیم قرآن، تلاوت قرآن، حسب طلب قرآن پڑھ کردم کرنے اور اس ہدیہ کو شامل ہے جو قاری قرآن کو اس لیے دیا جاتا ہے کہ وہ قاری ہے۔