الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ
(حقیقت تو یہ ہے کہ) جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور انہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کا شائبہ بھی آنے نہیں دیا (٣٠) امن اور چین تو بس انہی کا حق ہے، اور وہی ہیں جو صحیح راستے پر پہنچ چکے ہیں۔
(78) اوپر جو بات بیان کی جا چکی ہے کہ امن اور عدم خوف کے حقدار اہل ایمان ہیں اسی کی مزید تو ضیح کی گئی ہے، یہاں "ظلم "سے مراد شرک ہے، اور مقصود ان لوگوں کی تردید کرنی ہے جو اس زعم باطل میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ بھی اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور بتوں کی عبادت اسی ایمان باللہ کا تقاضی ہے، تاکہ وہ اللہ کے حضور سفارشی بنیں اور انہیں اللہ سے قریب کردیں، جیسا کہ اللہ نے سورۃ زمر آیت (3) میں فرمایا ہے :İمَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىĬ کہ ہم تو ان بتوں کی پرستش اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں "اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ کے عذاب سے امن انہیں کو نصیب ہوگا، جنہوں نے شرکیہ اعمال کے ذریعے اپنے ایمان کو فاسد نہیں بنایا ہوگا، اور دنیا میں بھی وہی لوگ اہل حق ہیں امام احمد نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں پر بڑا شاق گذرا، چناچہ رسول اللہ (ﷺ) سے کہا کہ یا رسول اللہ ! ہم میں سے کون ہے جو اپنے آپ پر ظلم نہیں کرتا یعنی کوئی گناہ نہیں کرتا، تو آپ نے فرمایا کہ آیت کا وہ مطلب نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو، کہا تم لوگوں نے اللہ کے نیک بندے (لقمان) کا قول نہیں سنا :İيَابُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌĬ کہ اے میرے بیٹے ! اللہ کا کسی کو شریک نہ بناؤ بے شک شرک ظلم عظیم ہے، آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے۔ ابن ابی حاتم لکھتے ہیں کہ تمام صحابہ کرام اور تابعین عظام نے (ظلم) کا معنی شرک ہی بتایا ہے۔