وَكَذَٰلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ
اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا نظارہ کراتے تھے، اور مقصد یہ تھا کہ وہ مکمل یقین رکھنے و الوں میں شامل ہوں۔
(70)"ملکوت"بروزن رہیوت و جبروت، مبالغہ کے وزن پر مصدر ہے، اس کا معنی "ملک عظیم " ہے بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد آسمانوں اور زمین میں مو جود عجا ئب و غرائب ہیں، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی ہر چیز ان کے سامنے کھول کر رکھ دی، اور انہوں نے عرش تک اور زمین کی آخری تہ تک سب کچھ کا مشاہدہ کیا، مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی خلقت اور ان میں موجود عجائب وغرائب میں غور کرکے اپنی وحدانیت پر استدلال کرنے کی دعوت دی، تاکہ توحید باری تعالیٰ پر ان کا یقین مزید مستحکم ہوجائے۔