فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ
پھر انہیں جو نصیحت کی گئی تھی، جب وہ اسے بھلا بیٹھے تو ہم نے ان پر ہر نعمت کے دروازے کھول دیئے (١٥) یہاں تک کہ جو نعمتیں انہیں دی گئی تھیں، جب وہ ان پر اترانے لگے تو ہم نے اچانک ان کو آپکڑا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بالکل مایوس ہو کر رہ گئے۔
(45) ان قوموں نے جب تکلیف ومصیبت والی آزمائشوں سے عبرت حاصل نہیں کی، تو پھر اللہ تعالیٰ نے دنیاوی نعمتوں سے انہیں مالا مال کردیا، اور یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ڈھیل اور ایک خطر ناک آزمائش تھی، یہاں تک کہ جب وہ اپنے شرکیہ اعمال کے ساتھ ان نعمتوں میں ڈوب گئے اور خوشی میں مگن ہوگئے، توا للہ تعالیٰ نے انہیں اچانک پکڑ لیا، اور ان کا وجود ہی ختم کردیا۔ اور جو کچھ ان کے ساتھ ہوا اس پر اللہ کا شکرہی ادا کرنا چاہیے، کیونکہ کافروں اور اللہ کے سر کش بندوں کے فاسد عقائد واعمال سے اہل زمین کا نجات پانا ایک بڑی نعمت ہے۔ امام احمد نے عقبہ بن عامر (رض) سے نبی کریم (ﷺ) کی یہ حدیث روایت کی ہے کہ جب تم دیکھو کہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندہ کو اس کے گناہوں کے باجود اس کی خواہش کے مطابق دنیاکی نعمتیں دے رہا ہے تو سمجھ لو کہ اس کی رسی ڈھیل دی گئی ہے، پھر آپ (ﷺ) نے یہی آیت پڑھی۔