يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ۚ وَمَن قَتَلَهُ مِنكُم مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ أَوْ عَدْلُ ذَٰلِكَ صِيَامًا لِّيَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِهِ ۗ عَفَا اللَّهُ عَمَّا سَلَفَ ۚ وَمَنْ عَادَ فَيَنتَقِمُ اللَّهُ مِنْهُ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ ذُو انتِقَامٍ
اے ایمان والو ! جب تم احرام کی حالت میں ہو تو کسی شکار کو قتل نہ کرو۔ اور اگر تم میں سے کوئی اسے جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کا بدلہ دینا واجب ہوگا (جس کا طریقہ یہ ہوگا کہ) جو جانور اس نے قتل کیا ہے، اس جانور کے برابر چوپایوں میں سے کسی جانور کو جس کا فیصلہ تم میں سے دو دیانت دار تجربہ کار آدمی کریں گے، کعبہ پہنچا کر قربان کیا جائے، یا (اس کی قیمت کا) کفارہ مسکینوں کا کھانا کھلا کر ادا کیا جائے، یا اس کے برابر روزے رکھے جائیں، (٦٦) تاکہ وہ شخص اپنے کیے کا بدلہ چکھے۔ پہلے جو کچھ ہوچکا اللہ نے اسے معاف کردیا، اور جو شخص دوبارہ ایسا کرے گا تو اللہ اس سے بدلہ لے گا، اور اللہ اقتدار اور انتظام کا مالک ہے۔
(115) اگر کوئی شخص حالت احرام میں کسی جانور یا شکار کو قتل کردے تو اس پر کیا حکم مرتب ہوگا، اس آیت میں یہی بیان کیا گیا ہے، ابن عباس، امام احمد اور داؤد ظاہری نے آیت سے استدالال کرتے ہوئے کہا ہے کہ غلطی یا بھول کر کسی شکار یا جانور کو قتل کرنے پر کوئی کفارہ نہیں۔، ابن عمر، حسن، نخعی، زہر ی، ابو حنیفہ، مالک اور شافعی وغیر ہم کا خیال ہے کہ کفارہ ہر حالت میں واجب ہوگا، اور آیت میں متعمدا کا لفظ عام حالت کو بیان کرنے کے لیے آیا ہے، شرط نہیں ہے ابن عباس کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ کفارہ اس شخص پر واجب ہوگا جو حالت احرام کو بھول گیا ہو اور قصد اشکار کرلیاہو مجاہد کا بھی یہی قول ہے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر حالت احرام کے یاد رہتے ہوئے ایسا کرے گا تو اس کا احرام کھل جائے گا اس لیے کہ اس نے احرام کے خلاف فعل کا ارتکاب کیا جیسا کہ کوئی شخص نماز میں بات کرنے لگے یا ہو خارج کردے۔ (116) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک قیمت میں مماثلت مراد ہے، اور مالک شافعی، احمد اور جمہور فقہاء کے نزدیک خلقت میں مما ثلت مراد ہے، شو کانی نے دوسری رائے کی تائید کی ہے اس لیے کہ یعنی اونٹ، گائے اور بکرے کی صراحت اور یعنی وہ فدیہ جانور ہو جو کعبہ تک پہنچایا جائے سے اسی قول کی تائید ہوتی ہے امام ابو حنیفہ کا یہ بھی قول ہے کہ مماثلت جانور کے ہوتے ہوئے قیمت دینا جائز ہے اور محرم کو اخیتار ہے۔ (117) ایسے دو آدمی جو مسلمانوں میں نیکی اور عدالت میں مشہور ہوں امام ابو حنیفہ کے نزدیک شکار کو قتل کرنے والا ان دونوں میں سے ایک نہیں ہوگا۔ اور امام شافعی کے ایک قول کے مطابق وہ شخص ان دونوں میں سے ایک ہو سکتا ہے۔ علما نے شکار کے ہر جانور کا مما ثل متعین کیا ہے شتر مرغ اونٹ کے مشابہ ہے، جنگلی گائے شہری گائے کے مشابہ ہے۔ اور جمہور علماء کا خیال ہے کہ حالت احرام میں شکار کو قتل کرنے والے کے لیے کفارہ کے تینوں اقسام کے درمیان اختیار حاصل ہے اور ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ کھانا کھلانا، اور روزہ رکھنا، فدیہ کے جانور نہ ملنے کی صورت میں ہی جا ئز ہے۔ یعنی زمانہ جاہلیت میں اگر کسی نے ایسا کیا تھا تو وہ معاف ہے، بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیاہے کہ کفارہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے اگر کسی نے ایسا کیا تھا تو وہ معاف ہے۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس حکم سے صرف پانچ جانور مستثنی ہیں جیسا کہ صحیحین میں عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا : پانچ قسم کے جانور بدکار ہیں، انہیں حدود حرم میں بھی قتل کردیا جائے گا کوا، چیل، بچھو، چوہا، اور کاٹنے والاکتا ۔ زید بن اسلم اور ابن عیینہ کہتے ہیں کہ " کاٹنے والا کتا "تمام خطرناک جانوروں کو شامل ہے اور اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جب عتبہ بن ابو لہب کے لیے بد دعا کی تو کہا اے اللہ ! تو اس پر اپنا کتا مسلط کردے، تو مقام زرقاء پر جنگلی جانوروں نے اسے چیر پھاڑ کر ختم کردیا۔