يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لَا يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِينَ قَالُوا آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِن قُلُوبُهُمْ ۛ وَمِنَ الَّذِينَ هَادُوا ۛ سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِينَ لَمْ يَأْتُوكَ ۖ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِن بَعْدِ مَوَاضِعِهِ ۖ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَٰذَا فَخُذُوهُ وَإِن لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا ۚ وَمَن يُرِدِ اللَّهُ فِتْنَتَهُ فَلَن تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللَّهُ أَن يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ
اے پیغمبر ! جو لوگ کفر میں بڑی تیزی دکھا رہے ہیں وہ تمہیں غم میں مبتلا نہ کریں (٣٢) یعنی ایک تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے زبان سے تو کہہ دیا ہے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں، مگر ان کے دل ایمان نہیں لائے، اور دوسرے وہ لوگ ہیں جنہوں نے (کھلے بندوں) یہودیت کا دین اختیار کرلیا ہے۔ یہ لوگ جھوٹی باتیں کان لگا لگا کر سننے والے ہیں (٣٣) (اور تمہاری باتیں) ان لوگوں کی خاطت سنتے ہیں جو تمہارے پاس نہیں آئے (٣٤) جو (اللہ کی کتاب کے) الفاظ کا موقع محل طے ہوجانے کے بعد بھی ان میں تحریف کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر تمہیں یہ حکم دیا جائے تو اس کو قبول کرلینا اور اگر یہ حکم نہ دیا جائے تو بچ کر رہنا۔ اور جس شخص کو اللہ فتنے میں ڈالنے کا ارادہ کرلے تو اسے اللہ سے بچانے کے لیے تمہارا کوئی زور ہرگز نہیں چل سکتا۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ ( ان کی نافرمانی کی وجہ سے) اللہ نے ان کے دلوں کو پاک کرنے کا ارادہ نہیں کیا۔ (٣٥) ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور انہی کے لیے آخرت میں زبردست عذاب ہے۔
53۔ اس آیت کریمہ میں نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو تسلی دی گئی ہے اور انہیں نصیحت کی گئی ہے کہ کفار اگر اپنے کفر میں تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں تو آپ ملول خاطر نہ ہوں، اللہ تعالیٰ آپ کو تنہا نہیں چھوڑ دے گا، بلکہ وہ ضرور آپ کی مدد فرمائے گا۔ 54۔ یہاں مراد منافقین ہیں، اور یہودیوں سے مراد بنو قریظہ کے یہود ہیں۔ 55۔ علمائے یہود جو جھوٹی باتیں پھیلاتے ہیں انہیں سننے اور قبول کرنے میں یہود بڑے تیز ہیں، یا مراد یہ ہے کہ وہ تمہاری خبریں سننے اور جمع کرنے میں بڑی دلچسپی رکھتے ہیں تاکہ ان میں حذف و اضافہ کے بعد اپنی مرضی کے مطابق ڈال لیں اور مسلم سوسائٹی میں خوف و ہراس پھیلانے کے لیے انہیں بیان کریں۔ 56۔ ان سے مراد خیبر کے یہود ہیں جو رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے انتہائے عداوت کی وجہ سے انہیں دیکھنا گوارہ نہیں کرتے تھے، اس لیے آپ کی مجلسوں میں شریک نہیں ہوتے تھے 57۔ علمائے یہود یہودیوں کو سمجھاتے تھے کہ ہم نے جو (تحریف شدہ) حکم تمہیں بتایا ہے، اگر وہی حکم تمہیں محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بتاتا ہے تو قبول کرلو ورنہ چھوڑ دو۔ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ مدینہ کے دو یہودی مرد اور عورت نے زنا کیا، تو یہود نے آپس میں مشورہ کیا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے پا س جایا جائے اگر وہ فیصلہ کرتا ہے کہ دونوں کو سو کوڑے مارے جائیں اور ان کے چہرے سیاہ کر کے گدھے پر الٹے بیٹھا کر شہر میں گھمایا جائے تو ٹھیک ہے (جو انہوں نے تورات میں تحریف کر کے اور رجم کو ساقط کر کے اپنا من مانا حکم وضع کرلیا تھا) تاکہ ہم اللہ کے یہاں یہ کہہ سکیں کہ اللہ کے ایک نبی بھی یہی فیصلہ کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو بذریعہ وحی ان کی اس سازش سے آگاہ کردیا، اس واقعہ کی تفصیل امام مالک نے مؤطا میں ابن عمر (رض) سے اور امام احمد اور مسلم وغیرہم نے براء بن عازب (رض) سے روایت کی ہے۔