يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو (٢٩) اور اس کے راستے میں جہاد کرو (٣٠) امید ہے کہ تمہیں فلاح حاصل ہوگی۔
48۔ یہاں وسیلہ سے مراد قربت ہے، یعنی اے اہل ایمان ! اللہ سے قربت کی کوشش میں لگے رہو، ابن عباس مجاہد، عطاء اور سفیان ثوری وغیرہم نے یہی تفسیر بیان کی ہے۔ قتادہ نے اس کی مزید توضیح کرتے ہوئے آیت کی تفسیر یوں کی ہے کہ اللہ کی بندگی اور اس کی رضا کے کاموں کے ذریعہ اس سے قربت حاصل کرو، وسیلہ جنت میں اعلی مقام کا نام بھی ہے، جو رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا مقام اور جنت میں ان کا گھر ہوگا۔ یہ مقام رب العالمین کے عرش سے سب سے قریب ہے۔ امام مسلم نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا، جب مؤذن کو اذان دیتے سنو تو جیسے وہ کہتا ہے ویسے ہی کہو، پھر مجھ پر درود بھیجو، اس لیے کہ جو مجھ پر ایک بار درود بھیجے گا اللہ اس پر دس بار درود بھیجے گا پھر میرے لیے اللہ سے وسیلہ مانگو، جو جنت میں ایک ایسا مقام ہے جس کا حقدار اللہ کا صرف ایک بندہ ہوگا، اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ میں ہوں گا، تو جو شخص میرے لیے اللہ سے وسیلہ کا سوال کرے گا، اس کے لیے میری شفاعت حلال ہوجائے گی۔ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مؤمن بندوں کو تقوی کا حکم دیا ہے، اور تقوی کے ساتھ اگر طاعت و بندگی کا حکم بھی ہو تو اس سے مراد محرمات اور منہیات سے باز رہنا ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کتاب الوسیلہ کی بہت ہی مفید توضیح کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ وسیلہ اور توسل تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ 1۔ واجبات و مستحبات کی ادائیگی کے ذریعہ اللہ کی قربت حاصل کرنا، جس کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت اور سورۃ اسراء کی آیت 57 میں آیا ہے، وسیلہ کا یہ معنی فرض ہے، اور اس کے بغیر مسلمان کا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ 2۔ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے اللہ کے حضور دعا اور شفاعت کروانا توسل کا یہ معنی نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی زندگی میں پایا گیا کہ صحابہ کرام (رض) نے مختلف موقعوں سے آپ سے دعائیں کروائیں، اور قیامت کے دن آپ اپنی امت کے لیے شفاعت کریں گے۔ 3۔ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی ذات کے ذریعہ توسل، یعنی اللہ تعالیٰ کو آپ کی ذات کی قسم دلانا، اور ان کی ذات کے ذریعہ سوال کرنا۔ توسل کی یہ قسم صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے، نہ آپ کی زندگی میں اور نہ آپ کی وفات کے بعد، نہ آپ کی قبر کے پاس اور نہ کسی اور جگہ، اور نہ یہ چیز صحابہ کرام سے ثابت شدہ دعاؤں میں پائی جاتی ہے۔ بعض ضعیف احادیث میں اس کا ذکر آیا ہے اور بعض ایسے لوگوں کی رائے ہے جن کی رائے اسلام میں حجت نہیں۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب نے توسل کی اس قسم کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ مخلوق کے توسل سے سوال کرنا جائز نہیں، اور نہ یہ کہنا جائز ہے کہ اے اللہ ! میں تجھ سے تیرے انبیاء کے حق کے طفیل میں سوال کرتا ہوں۔ بعض لوگوں نے صحیح بخاری کی حضرت عمر (رض) والی حدیث کا غلط مفہوم سمجھا ہے، جس کی تفصیل یوں ہے کہ جب مدینہ میں قحط سالی ہوئی تو حضرت عمر (رض) نے کہا کہ اے اللہ ! پہلے جب قحط سالی ہوتی تھی تو ہم تیرے نبی کے وسیلہ سے دعا کرتے تھے تو بارش ہوتی تھی، اب ہم تیرے نبی کے چچا کے وسیلہ دعا کرتے ہیں۔ اس حدیث میں نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ذریعہ توسل کا مفہوم آپ سے دعا کرانا ہے، نہ کہ آپ کی ذات کے ذریعہ وسیلہ حاصل کرنا، یہی وجہ ہے کہ عمر بن خطاب (رض) نے نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی وفات کے بعد آپ کے چچا عباس بن عبدالمطلب (رض) سے دعا کروائی، اگر مقصود آپ کی ذات کے ذریعہ توسل ہوتا تو حضرت عباس (رض) کی ذات کے ذریعہ توسل کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ معلوم ہوا کہ حضرت عمر (رض) کے نزدیک توسل کا مطلب دعا کروانا تھا۔ جو آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی وفات کے بعد ناممکن ہوگیا، اسی لیے انہوں نے حضرت عباس (رض) سے دعا کروائی۔ 49۔ اطاعت و بندگی اور ترک محرمات کا حکم دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو اپنی راہ میں جہاد کا حکم دیا، اور اس کا بدلہ آخرت کی کامیابی بتائی جو ابدی سعادت ہوگی، ایسی سعادت جس کا تصور دنیا میں نہیں کیا جاسکتا۔