إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَىٰ وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
جو لوگ (پیغمبر اسلام پر) ایمان لاچکے ہیں وہ ہوں یا وہ لوگ ہوں جو یہودی ہیں یا وہ لوگ ہوں جو یہودی ہیں یا نصاری اور صابی ہوں (کوئی ہو اور کسی گروہ بندی میں سے ہو) لیکن جو کوئی بھی خدا پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس کے اعمال بھی اچھے ہوئے تو وہ اپنے ایمان و عمل کا اجر اپنے پروردگار سے ضرور پائے گا۔ اس کے لیے نہ تو کسی طرح کا کھٹکا ہوگا نہ کسی طرح کی غمگینی
114: صابئین سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے یہود و نصاری کا دین چھوڑ دیا تھا، اور فرشتوں کی عبادت کرتے تھے۔ یہاں اس بات کی خبر دی گئی ہے کہ توبہ کا دروازہ یہود اور غیر یہود سب کے لیے کھلا ہوا ہے، چاہے گناہ ایسے ہوں جو اللہ کے غضب اور ذلت و مسکنت کا سبب ہوں جیسے یہود کے گناہ تھے، توبہ کرلینے اور نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر ایمان لانے کے بعد دنیا وآخرت میں انہیں بھی وہی اجر ملے گا جو دیگر مؤمنوں کو ملے گا۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گذشتہ قوموں میں سے جن لوگوں نے اپنے اپنے زمانے کے نبی کی اتباع کی، ان کو اللہ اچھا بدلہ دے گا، اور یہی حال قیامت تک رہے گا کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بعثت کے بعد سے قیامت تک جتنے لوگ آپ کی اتباع کریں گے، ان کو ابدی سعادت ملے گی اور کسی قسم کا غم و خوف انہیں لاحق نہیں ہوگا۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اس آیت کے بعد آیت وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلامِ دِيناً فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخاسِرِينَĬ ۔ نازل ہوئی، یعنی دین اسلام آجانے کے بعد دیگر تمام ادیان منسوخ ہوگئے۔ اور اس آیت میں یہود و نصاریٰ اور صابئین کے لیے جو اجر بتایا گیا ہے وہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے پہلے کے لوگوں کے لیے ہے۔ آپ کے زمانے کے یہود و نصاری اور صابئین میں سے جو لوگ آپ پر ایمان لائے، انہی کو یہ حکم شامل ہوگا، جو لوگ آپ پر ایمان نہیں لائے ان کے لیے یہ وعدہ نہیں ہے۔