يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَن يَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
اے ایمان والو ! اللہ نے تم پر جو انعام فرمایا اس کو یاد کرو۔ جب کچھ لوگوں نے ارادہ کیا تھا کہ تم پر دست درازی کریں، تو اللہ نے تمہیں نقصان پہنچانے سے ان کے ہاتھ روک دییے (١٢) اور (اس نعمت کا شکر یہ ہے کہ) اللہ کا رعب دل میں رکھتے ہوئے عمل کرو، اور مومنوں کو صرف اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
31۔ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کا اس کی نعمتوں پر شکر ادا کیا جائے اور اس پر مداومت برتی جائے۔ اس آیت کریمہ میں اسی بات کی نصیحت کی گئی ہے۔ اس آیت کے شان نزول کے بارے میں کئی روایتیں آئی ہیں۔ ان میں سے ایک روایت امام بخاری، عبدالرزاق، ابن جریر اور بیقہی وغیرہم نے جابر (رض) سے روایت کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم (ﷺ) ایک سفر میں کسی مقام پر اترے۔ لوگ درختوں کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لیے بکھر گئے، رسول اللہ (ﷺ) نے اپنی تلوار درخت سے لٹکا دی، ایک دیہاتی نے اچانک آکر تلوار لے لی اور اسے سونت کر رسول اللہ (ﷺ) سے کہا کہ تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ نے فرمایا اللہ دیہاتی نے دو یا تین بار یہی کہا، اور رسول اللہ (ﷺ) نے ہر بار جواب دیا کہ اللہ آخر کار دیہاتی نے تلوار کو میان میں رکھ دیا، تو آپ نے صحابہ کرام کو آواز دی اور دیہاتی کے رویہ کی خبر دی، جو آپ (ﷺ) کے بغل میں بیٹھا ہوا تھا، اور آپ نے اسے سزا نہیں دی۔ یہود اور مشرکین کی طرف سے بھی نبی کریم (ﷺ) کو قتل کرنے کی مختلف سازشیں ہوئیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر بار آپ کی حفاظت فرمائی۔