الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
آج تمہارے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کردی گئی ہیں، اور جن لوگوں کو (تم سے پہلے) کتاب دی گئی تھی، ان کا کھانا بھی تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے (٩) نیز مومنوں میں سے پاک دامن عورتیں بھی اور ان لوگوں میں سے پاک دامن عورتیں بھی تمہارے لیے حلال ہیں جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی (١٠) جبکہ تم نے ان کو نکاح کی حفاظت میں لانے کے لیے ان کے مہر دے دیے ہوں، نہ تو (بغیر نکاح کے) صرف ہوس نکالنا مقصودہو اور نہ خفیہ آشنائی پیدا کرنا۔ اور جو شخص ایمان سے انکار کرے اس کا سارا کیا دھراغارت ہوجائے گا اور آخرت میں اس کا شمار خسارہ اٹھانے والوں میں ہوگا۔
18۔ مزید تاکید کے طور پر اللہ کے نے فرمایا کہ اچھی چیزوں کو تمہارے لیے حلال کیا گیا ہے۔ اس کے بعد یہود و نصاری کے ذبیحوں کا حکم بیان کیا گیا ہے، ابن عباس، مجاہد اور سعید بن جبیر وغیرہم سے مروی ہے کہ یہاں اہل کتاب کے کھانے سے مراد ان کے ذبائح ہیں۔ علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ ان کے ذبائح مسلمانوں کے لیے حلال ہیں۔ اس لیے کہ وہ لوگ بھی مسلمانوں کی طرح غیر اللہ کے لیے ذبح کو حرام سمجھتے ہیں، اور اگرچہ وہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک بناتے ہیں، لیکن ذبح کرتے وقت اللہ کا ہی نام لیتے ہیں۔ اما م شوکانی کہتے ہیں، یہ آیت دلیل ہے کہ اہل کتاب کے تمام کھانے (چاہے وہ گوشت ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور کھانا) مسلمانوں کے لیے حلال ہیں، اس کے بعد ان کے ان ذبائح کے بارے میں جنہیں بسم اللہ کہہ کر ذبح نہ کیا گیا ہو، یا کسی اور کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو علمائے اسلام کا اختلاف بیان کیاہے، اور علی، عائشہ اور ابن عمر (رض) وغیرہم کا قول نقل کیا ہے کہ اگر کتابی نے ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام لیا ہے تو اسے نہ کھاؤ۔ اس کے بعد لکھا ہے کہ اگر اس بات کا علم نہ ہو کہ اس نے ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام لیا تھا تو الکیا طبری اور ابن کثیر نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے ایسے ذبیحہ کے کھانے کی حلت پر علمائے اسلام کا اجماع نقل کیا ہے۔ اور اس حدیث کی بنیاد پر جسے بخاری نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے اس بھنی ہوئی بکری کا گوشت کھایا جو یہودیہ نے آپ کے لیے بھیجا تھا اور عبداللہ بن مغفل (رض) کی اس حدیث کی بنا پر جسے بخاری و مسلم نے روایت کی ہے کہ خیبر کے دن انہیں چربی کا ایک تھیلا ملا جسے انہوں نے اپنے لیے رکھ لیا اور کہا کہ اس میں سے کسی کو نہ دوں گا، رسول اللہ (ﷺ) یہ سن کر ہنسنے لگے۔ محمد الدیلمی السوسی المالکی نے اپنے فتاویٰ میں ابن العربی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اگر کوئی نصرانی مرغی کی گردن اڑا دے تو مسلمان کے لیے اس کا کھانا حلال ہوگا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے کھانے ہمارے لیے حلال کیے ہیں اور اگر وہ لوگ اپنے دین کے مطابق کسی جانور کو ذبح کرتے ہیں، تو ہمارے لیے اس کا کھانا حلال ہوگا، یہ کوئی ضروری نہیں کہ وہ ہماری طرح ذبح کریں، اس لیے کہ یہ اللہ کی طرف سے رخصت اور آسانی دی گئی ہے اس سے وہی چیزیں مستثنی ہوں گی جنہیں اللہ نے واضح طور پر حرام قرار دیا ہے۔ 19۔ مسلمانوں کے ذبائح اہل کتاب کے لیے حلال ہیں، یعنی مسلمانوں کے لیے یہ حلال ہے کہ وہ اہل کتاب کو اپنا ذبیحہ کھلائیں ۔20۔ محصنات سے مراد پاکدامن مسلمان عورتیں ہیں، جنہوں نے زنا کا ارتکاب نہ کیا ہو ۔ابن جریر نے علمائے سلف کی ایک جماعت کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اس سے مراد ہر پاکدامن کتابیہ ہے چاہے وہ آزاد ہو یا لونڈی، بعض لوگوں نے محصنات سے مراد آزاد کتابیہ عورتیں لی ہیں، ان کے نزدیک کتابیہ لونڈی سے شادی کرنی جائز نہیں ہے۔ بیہقی، عبدالرزاق اور ابن جریر وغیرہم نے حضرت عمر (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ مسلمان نصرانی عورت سے شادی کرے گا، لیکن نصرانی مرد کسی مسلمان عورت سے شادی نہیں کرے گا۔ بہت سے صحابہ کرام نے نصرانی عورتوں سے شادی کی تھی، اور ان پر کسی نے نکیر نہیں کی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے نائلہ سے شادی کی تھی جو نصرانیہ تھی۔ طلحہ بن عبید اللہ (رض) نے ایک یہودیہ سے شادی کی تھی۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اسے مکروہ جانا اور کہا کہ اس سے بڑھ کر شرک کیا ہوسکتا ہے کہ کوئی عیسیٰ کو اپنا رب سمجھے۔ 22۔ کتابیہ عورتوں سے شادی کے جواز کے لیے شرط لگا دی گئی کہ ان کا مہر ادا کردیا گیا ہو، اور مقصود شادی کرنا اور عفت حاصل کرنا ہو، اعلانیہ یا چھپا کر زنا کی نیت نہ ہو حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ پاکدامنی جس طرح عورت میں شرط ہے اسی طرح مرد میں بھی شرط ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے غیر مصافحین کہا، یعنی شادی کرنے والے مرد کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ زانی نہ ہو۔ 23۔ ایمان سے مراد اسلام کے احکام ہیں۔ اور مقصود اللہ کے حلال کردہ اور حرام کردہ امور کی عظمت شان جتانا، اور ان لوگوں کو تنبیہ کرنی ہے جو ان احکامِ الٰہی کی مخالفت کرتے ہیں۔