يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ
لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کون سی چیزیں حلال ہیں؟ کہہ دو کہ : تمہارے لیے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں۔ اور جن شکاری جانوروں کو تم نے اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق سکھا سکھا کر (شکار کے لیے) سدھا لیا ہو، وہ جس جانور کو (شکار کر کے) تمہارے لیے روک رکھیں، اس میں سے تم کھا سکتے ہو، اور اس پر اللہ کا نام لیا کرو، (٨) اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ جلد حساب لینے والا ہے
15۔ مذکورہ بالا آیت میں خبائث کا بیان ہونے کے بعد جن کا کھانا انسان کے لیے نقصان دہ ہے، اب یہاں طیب اور حلال چیزوں کا بیان ہورہا ہے طبرانی، حاکم بیہقی اور ابن جریر وغیرہم نے ابو رافع (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کرم (ﷺ) نے انہیں کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا، تو لوگوں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ! ہمارے لیے کن چیزوں کا کھانا حلال ہے؟ تو نبی کریم (ﷺ) خاموش رہے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر سے روایت کی ہے کہ قبیلہ طائی کے عدی بن حاتم اور زید بن مہلہل (رض) نے رسول اللہ (ﷺ) سے پوچھا کہ ہم لوگ کتوں اور بازوں کے ذریعہ شکار کرتے ہیں تو یہ آیت نازل ہوئی آیت میں طیبات سے مراد ہر وہ چیز ہے جو خبیث نہیں ہے، اور ہر وہ چیز خبیث نہیں ہے جس کی حرمت قرآن و سنت میں وارد نہیں ہوئی ہے۔ جوارح سے مراد وہ جانور ہیں جنہیں آدمی شکار کرنے کے لیے سدھا لیتا ہے، جیسے کتا، چیتا، چیل، باز اور شاہین وغیرہ۔ آیت میں کلمہ مکلبین حرف لام پر زیر اور زبر دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ حرف لام پر زیر کی صورت میں معنی یہ ہوگا کہ ان جانووں کو اس فن کے ماہرین نے تربیت دی ہو، اور زبر کی صورت میں معنی یہ ہوگا کہ ان سدھائے ہوئے جانوروں کے شکار کردہ جانور کے حلال ہونے کی شرط یہ ہے کہ انہیں خوب اچھی طرح تربیت دی گئی ہو، اور ایسے لوگوں نے تربیت دی ہو جو اس فن کے ماہر ہوں۔ 16۔ یعنی وہ سدھائے ہوئے جانور جن جانوروں کا شکار کریں، اور اس کا کچھ حصہ کھایا نہ ہو تو ان کا کھانا جائز ہے، چاہے انہیں مار دیا ہو 17۔ یعنی سدھائے ہوئے جانوروں کو شکار چھوڑنے سے پہلے بسم اللہ کہہ لیا کرو۔ امام بخاری نے کتاب الذبائح و الصید میں عدی بن حاتم (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا اگر تم اپنے سکھائے ہوئے کتے کو چھوڑو، اور بسم اللہ کہہ لو تو جس شکار کو وہ تمہارے لیے پکڑ رکھے اسے کھاؤ، چاہے اسے مار ڈالے۔ معلوم ہوا کہ ایسے شکار کے حلال ہونے کے لیے دو شرطیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ سدھائے جانور کو چھوڑنے سے پہلے بسم اللہ کہہ لیا ہو، اور دوسری شرط یہ ہے کہ شکار کردہ جانور کا کوئی حصہ سدھائے ہوئے جانور نے نہ کھایا ہو۔ امام احمد اور ابوداود نے عدی بن حاتم (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اگر تم کسی کتا یا باز کو سدھار کر شکار پر چھوڑو، اور بسم اللہ کہہ لو تو جس شکار کو وہ تمہارے لیے پکڑ رکھے اسے کھاؤ، عدی نے کہا، چاہے اسے مار دیا ہو؟ تو آپ نے فرمایا کہ اگر اسے مار دیا ہو اور اس کا کوئی حصہ کھایا نہ ہو، تو گویا اس نے اسے تمہارے لیے پکڑ رکھا تھا۔ امام بخاری نے عدی بن حاتم (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے نبی کریم (ﷺ) سے پوچھا، تو آپ نے فرمایا کہ اگر تم اپنے سکھائے ہوئے کتے کو شکار پر چھوڑو، اور وہ اسے قتل کردے تو اسے کھاؤ، اور اگر اس کا کچھ حصہ کھا لے تو نہ کھاؤ، اس لیے کہ اس نے اپنے لیے پکڑا تھا، میں نے کہا کہ میں اپنا کتا چھوڑتا ہوں تو اس کے ساتھ ایک دوسرا کتا ہوجاتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ نہ کھاؤ، اس لیے کہ تم نے اپنے کتا کے لیے بسم اللہ کہا تھا، دوسرے کے لیے نہیں۔ امام بخاری نے عدی بن حاتم (رض) سے ہی کتاب الذبائح و الصید میں روایت کی ہے کہ میں نے کہا، اے اللہ کے رسول ! ہم سکھائے ہوئے کتوں کو شکار پر چھوڑتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا جس شکار کو وہ تمہارے لیے پکڑ کر رکھیں، اسے کھاؤ۔ میں نے پوچھا کہ چاہے انہیں مار دیا ہو؟ تو آپ نے فرمایا، چاہے انہیں مار دیا ہو، میں نے پوچھا کہ ہم لوگ چوڑے تیر سے شکار کرتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ اگر اس کی نوک اس کے جسم میں داخل ہوجائے تو کھاؤ اور اگر چوڑائی کی طرف سے شکار کو لگے تو نہ کھاؤ