يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ۗ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ
اے ایمان والو ! معاہدوں کو پورا کرو۔ تمہارے لیے وہ چوپائے حلال کردیے گئے ہیں جو مویشیوں میں داخل ( یا ان کے مشابہ) ہوں۔ (١) سوائے ان کے جن کے بارے میں تمہیں پڑھ کر سنایا جائے گا (٢) بشرطیکہ جب تم احرام کی حالت میں ہو اس وقت شکار کو حلال نہ سمجھو۔ (٣) اللہ جس چیز کا ارادہ کرتا ہے اس کا حکم دیتا ہے (٤)
2۔ بہیمۃ سے مراد چوپائے ہیں اور انعام نعم کی جمع ہے، نعم اونٹ، گائے اور بکری کو کہتے ہیں، ابن عباس (رض) اور حسن بصری کا یہ قول ہے یعنی تمہارے لیے ان جانوروں کا گوشت کھانا حلال کردیا گیا ہے۔ خطرناک اور شکار کرنے والے جانور مثلاً شیر اور چیتا اور ناخن والے جانور انعام میں داخل نہیں ہیں ۔ جن دیگر جانوروں کی حلت قرآن و سنت کے صریح نصوص سے ثابت ہے ان کا کھانا بھی حلال ہے، مثلا ہر نی اور جنگلی گدھا وغیرہ۔ اللہ نے سورۃ انعام آیت 145 میں فرمایا ہے ، آپ کہہ دیجئے کہ جو کتاب مجھے بذریعہ وحی دی گئی ہے، اس میں کسی کھانے والے کے لیے کوئی چیز حرام نہیں پاتا ہوں سوائے اس ککے کہ کوئی مردار جانور ہو، اور نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا ہے، یحرم کل ذی ناب من السبع و مخلب من الطیر (مسلم، احمد، ترمذی)۔ ہر دانت والا درندہ اور ہر چنگل والی چڑیا حرام ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان کے علاوہ جانوروں کا کھانا حلال ہے بعض صحابہ کرام نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے مذبوحہ جانور کے پیٹ کے بچے کا بھی کھانا حلال قرار دیا ہے۔ 3۔ یعنی اس حلت سے وہ جانور مستثنی ہیں جن کے کھانے کی حرمت قرآن یا سنت میں بیان کردی گئی ہے۔ جیسے سورۃ مائدہ کی آیت 3 میں جو کچھ بیان ہوا ہے، یا نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا وہ قول جو ابھی گذرا ہے کہ ہر ناخن والے جانور اور ہر پنجہ والی چڑیا کا کھانا حرام ہے۔ آیت کے اس حصہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی ہر سنت کتاب اللہ میں داخل ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے جن جانوروں اور چڑیوں کا کھانا حرام قرار دیا ہے، وہ سب باتفاق علماء میں داخل ہیں۔ اس کی ایک دلیل وہ مزدور والی حدیث بھی ہے جس کے باپ نے آ کر رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے کہا کہ یارسول اللہ ! میرا یہ لڑکا فلاں کے یہاں مزدوری کرتا تھا، اور اس کی بیوی کے ساتھ زنا کیا ہے، اس بارے میں فیصلہ کردیجئے، تو آپ نے فرمایا : لاقضین بینکما بکتاب اللہ کہ میں تم دونوں کے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا، حالانکہ رجم قرآن کریم میں منصوص نہیں ہے۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا ، یعنی حالت احرام میں شکار کرنا حرام ہے، اور شکار کے علاوہ جانور احرام اور غیر احرام دونوں حالتوں میں حلال ہوگا، اس کے بعد فرمایا کہ اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے، کیونکہ وہ مالک کل ہے اسی لیے اس نے زمانہ جاہلیت میں عربوں میں رائج احکام کے خلاف حکم دیا ہے۔