يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ ۚ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ يَرِثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ۚ وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۗ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوا ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
(اے پیغمبر) لوگ تم سے کلالہ کے بارے میں (یعنی ایسے آدمی کی میراث کے بارے میں جس کے نہ تو باپ ہو نہ اواد) فتوی طلب کرتے ہیں۔ کہہ دو اللہ تمہیں کلالہ کے بارے میں (حسب ذیل) حکم دیتا ہے۔ اگر کوئی ایسا مرد مر جائے جس کے اولاد نہ ہو (اور نہ باپ دادا) اور اس کے بہن ہو تو جو کچھ مرنے والا چھور مرا ہے اس کا آدھا بہن کا حصہ ہوگا اور بہن مرجائے اور اس کے اولاد نہ ہو تو اس (کے سارے مال) کا وارث وہ بھائی ہی ہوگا۔ پھر اگر دو بہنیں ہوں (یا دو سے زیادہ) تو انہیں ترکے میں سے دو تہائی ملے گا۔ اور اگر بھائی بہن (ملے جلے ہوں) کچھ مرد، عورتیں، تو پھر (اسی قاعدے سے حصے تقسیم ہوں گے کہ) مرد کے لیے دو عورتوں کے برابر حصہ۔ اللہ تمہارے لیے اپنے احکام واضح کرتا ہے تاکہ گمراہ نہ ہو اور اللہ تمام باتوں کا علم رکھنے والا ہے
161۔ اس آیت کریمہ میں کلالۃ کے میراث کی تفصیل بیان کی گئی ہے، جمہور علماء کے نزدیک کلالہ اس میت کو کہتے ہیں جس کی نہ کوئی اولاد ہو اور نہ والد، اس کی تشریح اسی سورت کی آیت 12 کی تفسیر کے ضمن میں گذر چکی ہے۔ اس آیت کے سبب نزول کے بارے میں آتا ہے کہ یہ فتوی جابر بن عبداللہ (رض) نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے پوچھا تھا، جیسا کہ بخاری و مسلم نے روایت کی ہے، انہوں نے کہا کہ میں مریض تھا تو رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تشریف لائے، آپ نے وضو کا پانی مجھ پر ڈالا تو مجھے ہوش آگیا، میں نے کہا کہ نہ میری کوئی اولاد ہے، اور نہ میرے والد زندہ ہیں، میری میراث کا کیا حکم ہوگا؟ تو یہ آیت نازل ہوئی۔ فوائد : 1۔ مسند احمد میں ہے کہ زید بن ثابت (رض) سے شوہر اور بہن کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے شوہر کو نصف اور بہن کو نصف دیا اور کہا کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے یہی فیصلہ کیا تھا۔ 2۔ اگر کوئی شخص ایک بیٹی اور ایک بہن چھوڑ کر مرے گا، تو جمہور کے نزدیک بیٹی کو نصف (فرض کی حیثیت سے) اور بہن کو نصف (عاصب ہونی کی حیثیت سے) ملے گا۔ ابن عباس اور ابن زبیر (رض) کے نزدیک بہن کو کچھ بھی نہیں ملے گا، اس لیے کہ اس آیت میں بہن کے وارث ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ میت کی اولاد نہ ہو۔ 3۔ اگر کوئی شخص ایک بیٹی، ایک پوتی، اور ایک بہن چھوڑ کر مرے تو بیٹی کو نصف، پوتی کو چھٹا حصہ، اور باقی ایک تہائی بہن کو ملے گا، عبداللہ بن مسعود (رض) نے یہی فیصلہ کیا اور کہا کہ اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے یہی فیصلہ کیا ہے (بخاری) 4۔ اگر کسی عورت کو اولاد یا والد نہیں، اور اس کا بھائی ہے تو بھائی اس کی تمام جائداد کا وارث ہوگا 5۔ اگر عورت کا شوہر یا اس کی ماں کی طرف سے کوئی بھائی ہے تو وہ اپنا حصہ پائے گا، اور باقی مال سگے بھائی کو ملے گا۔ 6۔ اگر میت کی دو یا زیادہ بہنیں ہوں تو انہیں دو تہائی مال ملے گا جمہور نے دو بیٹیوں کی وراثت کا حکم اسی سے اخذ کیا ہے جیسے بہنوں کی وراثت کا حکم سورۃ النساء کی آیت (11) سے اخذ کیا گیا ہے جس میں بیٹیوں کی وراثت کا حکم بیان ہوا ہے۔ آیت یہ ہے ، پس اگر دو سے زیادہ عورتیں ہوں تو انہیں ترکہ کا دو تہائی ملے گا۔ 7۔ اگر میت کے بھائی اور بہن دونوں ہوں تو مرد کو عورت کے دوگنا ملے گا، آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے مسلمانو ! اللہ نے یہ احکام اس لیے بیان کردئیے ہیں، تاکہ تم ان مسائل میں حق بات چھوڑ کر اپنی طرف سے کوئی غلط فیصلہ نہ کر بیٹھو۔