يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ ۚ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَىٰ مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۖ وَلَا تَقُولُوا ثَلَاثَةٌ ۚ انتَهُوا خَيْرًا لَّكُمْ ۚ إِنَّمَا اللَّهُ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ سُبْحَانَهُ أَن يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ ۘ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِيلًا
اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو نہ کرو (یعنی حقیق و اعتدال سے گزر نہ جاؤ) اور اللہ کے بارے میں حق کے سوا اور کچھ نہ کہو مریم کا بیٹا عیسیٰ مسیح اس کے سوا کچھ نہیں کہ اللہ کا رسول ہے اور اس کے کلمہ (بشارت) کا ظہور ہے جو مریم پر القا کیا گیا تھا، نیز ایک روح ہے جو اس کی جانب سے بھیجی گئی پس چاہیے کہ اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ، اور یہ بات نہ کہو کہ خدا تین ہیں۔ دیکھو، ایسی بات کہنے سے باز آجاؤ کہ تمہارے لیے بہتری ہو، حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ ہی اکیلا معبود ہے (اس کے سوا کوئی نہیں) وہ اس سے پاک ہے کہ اس کے لیے کوئی بیٹا ہو۔ آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کے ہے ہے (وہ بھلا اپنے کاموں کے لیے اس بات کا کیوں محتاج ہونے لگا کہ کسی کو بیٹا بنا کر دنیا میں بھیجے؟ کارسازی کے لیے خدا کا کارساز ہونا بس ہے
157۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کو دین میں غلو کرنے سے منع فرمایا ہے، اس لیے کہ ہر دور میں یہ برائی ان کے اندر دوسروں کی بہ نسبت زیادہ پائی گئی، انہوں نے دین میں رہبانیت اور عورتوں سے کنارہ کشی کو ایجاد کیا، اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا مقام دیا، بلکہ اپنے علماء اور راہبوں تک کو اپنا معبود بنا لیا، جیسا کہ اللہ نے فرمایا، ، کہ انہوں نے اپنے علماء اور راہبوں کو معبود بنا لیا۔ بخاری نے عمر بن خطاب (رض) سے روایت کی ہے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا میری تعریف میں حد سے تجاوز نہ کرو، جیسا کہ نصاری نے ابن مریم کے سلسلہ میں کیا، میں اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو، اس حدیث میں رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے امت مسلمہ کو تنبیہ کی ہے کہ جس بیماری میں نصاری مبتلا ہوئے، اس میں وہ مبتلا نہ ہوں، نصاری نے عیسیٰ بن مریم کو مقام نبوت سے اٹھا کر مقام الوہیت تک پہنچا دیا، اور انہیں اللہ کا بیٹا بنا دیا، حالانکہ اللہ نے انہیں مریم کے بطن سے بغیر باپ کے حضرت آدم کی طرح پیدا کر کے اپنی قدرت کاملہ کی ایک نشانی بنائی تھی، وہ اللہ کے بندہ اور رسول تھے، اس سے زیادہ ان کی حیثیت نہیں تھی، لیکن ان کے ماننے والوں نے انہیں اپنا معبود بنا لیا۔ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے مسلمانوں کو آگاہ کیا ایسا نہ ہو کہ وہ بھی آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے معاملہ میں حد سے تجاوز کر جائیں، اور انہیں مقام رسالت سے اٹھا کر مقام الوہیت تک پہنچا دیں۔ افسوس ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جس بات سے ڈرتے تھے وہی ہوا۔ بہت سے اسلام کا دعوی کرنے والوں نے آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو اللہ کا مقام دے دیا اور آپ کو حاجت روا، مشکل کشا اور وہ سب کچھ سمجھنے لگے جو اللہ کی قدرت اور اس کی صفات میں داخل ہیں اور نعوذ باللہ نقل کفر کفر نہیں ہوتا، پکار اٹھے کہ وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہوکر اتر پڑا ہے مدینہ میں مصطفی ہو کر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے حال پر رحم کرے، انہیں خالص توحید کی راہ پر ڈال دے اور قرآن و سنت کا سچا متبع بنا دے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ پر افترا پردازی نہ کرو، اسے ایسی صفات کے ساتھ متصف نہ کرو جن کے ساتھ اس کا متصف ہونا محال ہے، جیسے یہ اعتقاد رکھنا کہ اللہ اپنی مخلوقات میں حلول کیے ہوئے ہے، نیز اللہ اور بندے میں فی الواقع کوئی فرق نہیں، اس لیے کہ وہ اپنے بندوں کے ساتھ متحد ہے، یا یہ اعتقاد رکھنا کہ اللہ کی بیوی یا اس کا بیٹا ہے، اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اس کے علاوہ کوئی رب نہیں، اسی لیے عیسیٰ بن مریم کے بارے میں عیسائیوں کے عقیدہ کی تردید کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ عیسیٰ بن مریم صرف اللہ کے رسول تھے، اللہ نے انہیں بغیر باپ اور بغیر نطفہ کے صرف کلمہ کن سے پیدا کیا، جسے اس نے مریم بنت عمران تک جبرئیل (علیہ السلام) کے پھونک کے ذریعہ پہنچادیا اور عیسیٰ ایک روح تھے، جسے اللہ نے دیگر تمام مخلوق روحوں کی طرح پیدا کیا تھا، اور روح کی نسبت اللہ نے اپنی طرف عیسیٰ (علیہ السلام) کی تکریم کے لیے کی ہے۔ بعض علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ روح سے مراد مریم کی گریبان میں جبرئیل (علیہ السلام) کی وہ پھونک ہے جس کی وجہ سے اللہ کے حکم سے مریم کو حمل قرار پا گیا، اور اس پھونک کو روح اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ ایک ہوا تھی جو روح سے خارج ہوئی اور اس کی نسبت اللہ نے اپنی طرف اس وجہ سے کی کہ وہ اللہ کے حکم سے پائی گئی تھی اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ جب عیسیٰ کی پیدائش کی حقیقت معلوم ہوگئی اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ وہ اللہ کے رسول تھے، تو پھر ایمان رکھو کہ اللہ اکیلا ہے، اس کی بیوی یا بیٹا نہیں، اور عیسیٰ اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے، اس لیے یہ نہ کہو کہ اللہ (اللہ مسیح اور مریم) تینوں کے مجموعہ کا نام ہے حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ نصاری کے کفر کی کوئی حد نہیں اور نہ ان کی گمراہیوں کی کوئی انتہا ہے ان میں سے کچھ لوگ عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں، عیسائیوں کے بہت سے گروہ ہیں، جن کی مختلف رائیں اور متناقض اقوال ہیں، ان کے انہی فکری تناقض و تباین کی وجہ سے، بعض متکلمین نے کہا ہے کہ اگر دس نصرانی ایک جگہ جمع ہوجائیں تو ان کے آپس میں اختلاف کی وجہ سے گیارہ مختلف اقوال پیدا ہوں گے۔ علمائے اسلام نے عیسائیوں کے اس عقیدہ تثلیث کی تردید کی ہے، اور ثابت کیا ہے کہ یہ عقیدہ عقل و منطق کے خلاف ہے، اس وقت امریکہ اور برطانیہ وغیرہ میں ایسے بہت سے عیسائی پائے جاتے ہیں جو عیسیٰ (علیہ السلام) کو معبود حقیقی نہیں مانتے، بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ معبود حقیقی صرف ایک اللہ ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کو خطاب کر کے کہا کہ تم لوگ عقیدہ تثلیث سے باز آجاؤ، اسی میں تمہارے لیے ہر بھلائی ہے، اس لیے کہ معبود صرف ایک اللہ ہے، وہ اس عقیدہ سے برتر و بالا اور پاک ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو، کیونکہ آسمان اور زمین کی ہر چیز اس کی ملکیت ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کا مملوک و مخلوق اس کا ایک جزو بن جائے؟ تمام مخلوقات کے معاملات اللہ کے حوالے ہیں، اور وہ ان سب سے بے نیاز ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنا لے، بیٹا تو اس کا ہوتا ہے جو عاجز، کمزور اور محتاج ہوتا ہے، تاکہ وہ اس کا قائم مقام بن سکے۔