فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَن سَبِيلِ اللَّهِ كَثِيرًا
الغرض یہودیوں کے اس ظلم کی وجہ سے ہم نے (کئی ایک) اچھی چیزیں ان پر حرام کردیں جو (پہلے) حلال تھیں اور اس وجہ سے بھی کہ وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بتہ روکنے لگے تھے (اور ہدایت کی راہ میں سرتا سر روک ہوگئے تھے
149۔ یہاں ظلم سے مراد وہ بڑے بڑے گناہ ہیں جن کا ارتکاب یہودیوں نے کیا تھا، اور جن کا ذکر آیت155، 156، 157 میں آچکا ہے، ان گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر بعض حلال چیزوں کو حرام کردیا، جو پہلے سے ان کے لیے حلال تھیں۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس تحریم سے مراد یا تو یہ ہے کہ یہودیوں نے خود تورات میں تحریف کر کے اپنے اوپر کچھ حلال چیزوں کو حرام بنالیا، تو گویا تقدیر میں اللہ نے ایسا ہی ہونا لکھا تھا، یا اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تورات میں کچھ ایسی حلال چیزوں کو حرام کردیا جو پہلے ان کے لیے حلال تھیں، اور یہ ان کے گناہوں کی وجہ سے ہوا، انہوں نے اللہ کے بہت سے بندوں کو صراط مستقیم سے روکا، سود کھایا، جبکہ انہیں اس سے روکا گیا تھا، اور لوگوں کا مال ناجائز راستوں سے کھایا، مثال کے طور پر علمائے یہود نے یہودیوں کو ان کی خواہش کے مطابق فتوے دئیے اور ان سے رشوت لی۔