فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِم بِآيَاتِ اللَّهِ وَقَتْلِهِمُ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ ۚ بَلْ طَبَعَ اللَّهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا
پس ان کے عہد (اطاعت) توڑنے کی وجہ سے، اور اللہ کی آیتیں جھٹلانے کی وجہ سے، اور اس وجہ سے کہ خدا کے نبیوں کو ناحق قتل کرتے رہے، نیز (اس شقاوت کی وجہ سے کہ) انہوں نے کہا "ہمارے دلوں پر (تہ در تہ) غلاف چڑھے ہوئے ہیں۔ (ان میں قبولیت حق کی استعداد باقی ہی نہیں رہی۔ ان کے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے نہیں ہیں) بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر خدا نے مہر لگا دی ہے، یہی وجہ ہے کہ معدودے چند آدمیون کے سوا سب کے سب ایمان سے محروم ہیں
147۔ آیت 155 سے لے کر 158 تک یہود کے ان جرائم کا بیان ہے جن کی وجہ سے وہ اللہ کی لعنت کے مستحق بنے : 1۔ اللہ سے کیے گئے تمام عہود و مواثیق کو توڑ ڈالا۔ 2۔ اللہ کے بھیجے گئے دلائل و براہین اور معجزات کا انکار کیا۔ 3۔ انبیاء کرام کی ایک کثیر تعداد کو قتل کیا۔ 4۔ استکبار میں آ کر کہا کہ ہمارے دل پر پردے پڑے ہیں، ان میں انبیاء کی باتیں داخل نہیں ہوتیں تو ہمارا کیا قصور ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کردی اور کہا کہ بات بالکل برعکس ہے، اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے، اس لیے اب حق بات قبول کرنے کی استعداد تقریباً ختم ہوچکی ہے 5۔ مریم علیہا السلام پر زنا کی تہمت دھری اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو ولد الزنا بتایا 6۔ دعوی کیا کہ انہوں نے عیسیٰ بن مریم کو قتل کردیا تھا اور بطور استہزاء تو کہا کہ دیکھو ہم نے اللہ کے رسول کو قتل کردیا۔ (اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دعوی کی تردید کی، اور کہا کہ انہوں نے عیسیٰ کو نہ قتل کیا اور نہ پھانسی دی، بلکہ وہ شبہ میں ڈال دئیے گئے) اسی لیے اللہ نے کہا کہ جن لوگوں نے عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کیا ہے، در اصل وہ شک میں مبتلا ہوگئے ہیں، ان کے پاس اس بارے میں کوئی صحیح علم نہیں ہے، وہ تو محض ظن و گمان سے ایک بات کہتے ہیں، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے عیسیٰ کو قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف بلا لیا تھا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل اور ان کے پھانسی پر چڑھائے جانے کے بارے میں جو تفصیلات ابن عباس (رض) سے روایت کی جاتی ہیں، قرآن و سنت سے ان کا ثبوت نہیں ملتا۔ حافظ ابن کثیر نے بھی تفسیر کی کتابوں میں موجود ان واقعات کی تلخیص کر کے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے، جن میں تناقض پایا جاتا ہے، کیونکہ ان روایات کے مطابق جب عیسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والوں نے ان کی گرفتاری کے وقت ان کو کہتے سنا کہ کون ہے جو میری شبیہ بنانا پسند کرے گا، اور وہ جنت میں میرا ساتھی ہوگا، ان میں سے ایک نے یہ مرتبہ قبول بھی کرلیا تو پھر کیسے یہود کی طرح وہ بھی گمان کرتے ہیں کہ عیسیٰ کو پھانسی دے دی گئی صحیح بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں قرآن کریم میں جو خبر دی ہے، صرف اسی پر (تفصیل میں داخل ہوئے بغیر) ایمان رکھنا چاہئے، یہ جاننا ضروری نہیں کہ اللہ نے یہودیوں کو کس طرح شبہ میں ڈال دیا اور عیسیٰ کا شبیہ کسے بنایا گیا۔