أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ
اے پیغمبر) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے اس لشکر کے ساتھ کیا سلوک کیا جو ہاتھیوں کا ایک غول لے کر مکہ پر حملہ آور ہوا (١)۔
(1)اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو مخاطب کر کے اصحاب فیل کی ہلاکت کا واقعہ یاد دلایا ہے، جو اپنی قوت و جبروت کے نشے میں یمن سے خانہ کعبہ کو گرانے کے لئے آئے تھے اور کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی طرح قریش کے ظالموں اور سرکشوں کو بھی ہلاک کرنے پر قادر ہے اس لئے اے میرے نبی ! آپ صبر سے کام لیجیے اور ہمارے فیصلے کا انتظار کیجیے۔ اصحاب فیل کا واقعہ متواتر روایتوں سے ثابت ہے اہل مکہ نے اسے اس کی شہرت اور اہمیت کے پیش نظر اپنی تاریخ کی ابتدا بنا لی تھی، ابن ہشام اور دیگر اہل تاریخ و سیر نے اس واقعے کی جو تفصیل بیان کی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ابرہہ حبشی نے جو نجاشی کی طرف سے یمن کا گورنر تھا، صنعاء میں ایک گرجا بنایا تاکہ لوگوں کو خانہ کعبہ کے بجائے اس کے طواف و زیارت کی دعوت دے ایک قریشی یہ سن کر بڑا متاثر ہوا اور رات کے وقت اس نے اس گرجا میں داخل ہو کر پاخانہ کردیا اور اس کی دیواروں میں لگا دیا، ابرہہ یہ سن کر شدید ناراض ہوا اور ایک بہت بڑی فوج لے کر (جس میں تیرہ ہاتھی بھی تھے) خانہ کعبہ کو گرانے کے لئے روانہ ہوگیا، جب مکہ کے قریب پہنچا تو عبدالمطلب نے اس کو ہر طرح سمجھایا لیکن وہ اپنی بات پر اڑا رہا تب عبد المطلب نے لوگوں سے کہا کہ ہم سب پہاڑوں پر چڑھ جائیں اور جس اللہ کا گھر ہے وہ اپنے گھر کی حفاظت کرلے گا۔ چنانچہ جب ابرہہ اپنی طاقت کے نشے میں چور آگے بڑھا، تو اللہ کے حکم سے چھوٹی چھوٹی ابابیل چڑیاں اپنی چونچوں اور پنجوں میں کنکر لئے آئیں اور اس کو اور اس کی فوج کو مارنے لگیں روایتوں میں آتا ہے کہ ان کنکروں کی چوٹ سے ان کے جسم میں کھجلی ہونے لگی اور کھجلاتے ہی ان کے جسموں کا گوشت گرنے لگا اور سب وادی محسر اور اس کے آس پاس ہلاک ہوگئے ابرہہ جان بچا کر بھاگا، لیکن وہ بھی یمن پہنچنے کے بعد مر گیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ اور اہل مکہ کو بچا لیا اور یہ واقعہ رہتی دنیا تک کے لئے تازیانہ عبرت بن گیا، اس کے بعد سے آج تک پھر کسی نے ابرہہ جیسی جرأت نہیں کی اور وہاں کے امن و سکون میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا، وللہ الحمد ۔