وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ
تباہی ہے اس شخص کے لیے جو عیب جو اور طعنہ زن ہے (١، ٢)۔
(1) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے جہنم کی وادی ویل، یا ہلاکت و عذاب کی دھمکی ہر اس شخص کو دی ہے جو لوگوں کی عیب جوئی اور منہ پر یا پیٹھ پیچھے غیبت کرتا پھرتا ہے۔ ﴿ هُمَزَةٍ سے مراد وہ آدمی ہے جو کسی کی اس کے منہ پر برائی بیان کرتا ہے اور ﴿ لُّمَزَةٍ اس کو کہتے ہیں جو کسی کی پیٹھ پیچھے برائی بیان کرتا ہے بعض نے کہا ہے کہ ﴿ هُمَزَةٍ وہ ہے جواپنے عمل اور اشارہ کے ذریعہ کسی کی عیب جوئی کرتا ہے اور ﴿ لُّمَزَةٍ وہ ہے جو اپنی زبان کے ذریعہ کسی کی عیب جوئی کرتا ہے۔ مشرکین مکہ میں کچھ ایسے لوگ تھے جن میں خاص طور سے یہ بری صفت پائی جاتی تھی، جیسے اخنس بن شریق وغیرہ یہ لوگ جب مسلمانوں کو دیکھتے تو کبھی زبان سے اور کبھی اشارے سے ان کا مذاق اڑاتے تھے، لیکن آیت کا حکم عام ہے اور ہر اس آدمی کو شامل ہے جس کے اندر کسی بھی زمان و مکان میں یہ بری صفت پائی جائے گی اور قرآن کریم کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور کے مجرموں کے اندر بالخصوص یہ صفت پائی جاتی رہی ہے، سورۃ المطففین آیات (29/30) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿ إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ وَإِذَا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغَامَزُونَ Ĭ” گناہ گار لوگ ایمانداروں کی ہنسی اڑایا کرتے تھے، اور ان کے پاس سے گزرتے ہوئے آپس میں آنکھ کے اشارے کرتے تھے۔ “