سورة النسآء - آیت 128

وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِن بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا ۚ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ۗ وَأُحْضِرَتِ الْأَنفُسُ الشُّحَّ ۚ وَإِن تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے سرکشی یا کنارہ کشی کا اندیشہ ہو تو شوہر اور بیوی پر کچھ گناہ نہ ہوگا، اگر (مصالحت کی کوئی بات آپس میں ٹھہرا کر) صلح کرلیں۔ (نا اتفاق سے) صلح (ہر حال میں) بہتر ہے۔ اور (یاد رکھو انسان کی طبیعت اس طرح واقع ہوئی ہے کہ) مال کا لالچ سبھی میں ہوتا ہے (عورت چاہتی ہے اسے زیادہ سے زیادہ ملے۔ مرد چاہتا ہے کم سے کم خرچ کرے۔ پس ایسا نہ کرو کہ مال کی وجہ سے آپس میں مصالحت نہ ہو) اور اگر تم (ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور (سخت گیری سے بچو تو تم جو کچھ کرتے ہو خدا اس کی خبر رکھنے والا ہے

تفسیرتیسیرارحمٰن - محمد لقمان سلفی

124۔ اس آیت کریمہ میں شوہر اور بیوی سے متعلق ایک حکم بیان کیا گیا ہے، کہ اگر بیوی اپنے شوہر کی طرف سے بے رخی کا اندازہ لگار رہی ہو، مثال کے طور پر اس کے ساتھ ایک بستر میں سونا چھوڑ دے یا اس کے اخراجات میں کمی کر دے، یا اس کے ساتھ بیٹھنا اور بات چیت کرنا بند کردے، تو دونوں کے لیے مناسب یہ ہے کہ آپس میں بیٹھ کر صلح کرلیں اور اس بات پر اتفاق کرلیں کہ شوہر اس کا حق ادا کرے جیسا کہ اسلام کا تقاضا ہے، اور اگر ایسا ممکن نظر نہ آئے اور بیوی چاہتی ہو کہ ازدواجی زندگی قائم رہے، تو مہر یا اخراجات کا کچھ حصہ چھوڑ دے یا شوہر کو کچھ اور مال دے دے، یا اگر اس کے پاس کوئی دوسری بیوی ہے جسے وہ زیادہ چاہتا ہے تو اپنی باری کے کچھ ایام اس کو دے دے اور شوہر اسے طلاق نہ دے، اور اگر یہ دونوں ہی صورت ممکن نہ ہو تو پھر شوہر طلاق دے دے، لیکن صلح میں ہر بھلائی ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنی چیز کسی کو نہ دینا، اس معاملہ میں بخل سے کام لینا ہر انسان کی فطرت میں داخل ہے، اس لیے بیوی کو چاہئے کہ شوہر کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے اپنے بعض حقوق سے دست بردار ہوجائے، اسی طرح شوہر کے طبع بخل کو مد نظر رکھتے ہوئے، اس کی جانب سے کم ہی پر راضی ہوجائے، اور مال کثیر کا مطالبہ کر کے اسے زیر بار نہ کرے، تاکہ صلح کو عملی جامہ پہنانا ممکن ہوسکے۔ امام بخاری (رح) نے عائشہ رضی ا للہ عنہا سے روایت کی ہے کہ یہ آیت ایسی عورت کے بارے میں ہے جس کا شوہر اب اسے نہیں چاہتا، اسے طلاق دے کر کسی دوسری عورت سے شادی کرنی چاہتا ہے، بیوی کہتی ہے کہ مجھے طلاق نہ دو اور دوسری شادی کرلو، اور میں اپنے نان و نفقہ اور اپنی باری سے دست بردار ہوتی ہوں۔ حاکم نے عروہ کے واسطے سے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا کہ اے میرے بھانجے ! رسول اللہ (ﷺ) باری کے معاملہ میں ہم میں سے کسی کو کسی پر ترجیح نہیں دیتے تھے، اور تقریباً ہر دن ہم سب کے پاس آتے تھے ہر بیوی کے قریب ہوتے لیکن چھوتے نہیں تھے۔ یہاں تک کہ جس کی باری ہوتی اس کے پاس پہنچتے، اور وہاں رات گذارتے، سودہ بنت زمعہ (رض) بوڑھی ہوگئی تھیں اور انہیں ڈر ہوگیا تھا کہ رسول اللہ (ﷺ) انہیں چھوڑ دیں گے، انہوں نے کہا، یا رسول اللہ ! میں اپنی باری عائشہ کو دیتی ہوں، تو آپ نے اسے قبول کرلیا۔ عائشہ (رض) کہتی ہیں ہم لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ اور اسی طرح کے دیگر حالات کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے İوَإِنِ امْرَأَةٌ خافَتْ مِنْ بَعْلِها نُشُوزاًĬ علماء نے لکھا ہے کہ آپ (ﷺ) نے ایسا اس لیے کیا تاکہ امت کے لیے آپ کا عمل نمونہ بنے اس کے بعد اللہ نے شوہروں کو خطاب کر کے فرمایا کہ اگر تم لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کروگے، اور ان کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہو گے، تو اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو اچھی طرح جانتا ہے، اس کا تمہیں اچھا بدلہ دے گا۔