وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُم بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَىٰ بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
اور (پھر وہ وقت) جوب موی (کتاب الٰہی کا عطیہ لے کر پہاڑ سے اترا تھا اور تمہیں ایک بچھڑے کی پوجا میں سرگرم دیکھ کر) پکار اٹھا تھا : اے میری قوم ! افسوس تمہاری حق فراموشی پر) تم نے بچھڑے کی پوجا کر کے خود اپنے ہاتھوں اپنے کو تباہ کردیا ہے۔ پس چاہیے کہ اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور گوسالہ پرستی کے بدلے اپنی جانوں کو قتل کرو۔ اسی میں خدا کے نزدیک تمہارے لیے بہتری ہے۔ چنانچہ تمہاری توبہ قبول کرلی گئی، اور اللہ بڑا ہی رحمت والا، اور رحمت سے سے درگزر کرنے والا ہے
107: گذشتہ آیتوں میں جس عفو و مغفرت کا ذکر ہوا اس کی تفصیل یہاں بیان کی گئی ہے۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھا کہ ہمارے اس گناہ کی توبہ کیا ہے۔ تو موسیٰ نے کہا تم میں سے بعض بعض کو قتل کریں۔ چنانچہ انہوں نے چھریاں لے کر ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ جب ستر ہزار آدمی قتل ہوگئے تو اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی اطلاع دی کہ انہیں حکم دو کہ اب قتل کرنا بند کردیں، جو قتل ہوگئے انہیں معاف کردیا گیا، اور جو باقی رہ گئے ان کی توبہ قبول کرلی گئی۔ ایک دوسری رائے یہ ہے کہ لاوی بن یعقوب کی اولاد نے بچھڑے کی پرستش نہیں کی تھی، انہیں حکم دیا گیا کہ وہ ان لوگوں کو قتل کریں جنہوں نے بچھڑے کی پرستش کی تھی، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے سب کی توبہ قبول کرلی۔ یہی رائے راجح معلوم ہوتی ہے، اس لیے کہ موحدین نے مشرکین کو اللہ کے حکم سے قتل کیا تھا۔