وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهَانَنِ
اور جب اس کے ایمان کو کسی آزمائش میں ڈال کر اس طرح آزماتا ہے کہ رزق اس پر تنگ کرددیتا ہے (یعنی مصیبت میں ڈال دیتا ہے تو معا مایوس ہوکر) کہنے لگتا ہے کے میرا پروردگار تو مجھے ذلیل کررہا ہے اور میرا کچھ خیال نہیں کرتا (٤)۔
(16)اور اگر اللہ تعالیٰ انہیں بطور آزمائش فقر و فاقہ سے دوچار کردیتا ہے، تو فوراً شکوہ کرنے لگتے ہیں کہ اللہ نے محتاجی میں مبتلا کر کے ہمیں ذلیل و رسوا کردیا۔ دولت و مالداری اور فقر و محتاجی دونوں ہی حالتوں میں ان کی سوچ مریض اور ان کی فکر کج ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دولت دی تو اس لئے کہ وہ اس کے شکر گزار بنیں اور محتاجی میں مبتلا کیا تو اس لئے کہ وہ اللہ کی اس تقدیر پر راضی رہیں، صبر کریں، اور تنگدستی کے باوجود حرام ذرائع سے روزی حاصل کرنے کی نہ سوچیں۔