وَمَن يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رَّحِيمًا
اور جو شخص کوئی برائی کی بات کر بیٹھتا ہے یا اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کرلیتا ہے، اور پھر (اس سے توبہ کرتا ہوا) اللہ سے بخشش طلب کرتا ہے (تو اس کے لیے بخشش کا دروازہ کھلا ہوا ہے) وہ اللہ کو بخشنے والا، رحمت رکھنے والا پائے گا
111۔ آیت 110 سے 113 تک کا تعلق بھی طعمہ بن ابیرق ہی کے واقعہ سے ہے، جن لوگوں نے چوری کی اور جنہوں نے ابن ابیرق کا ساتھ دیا اور اس کا دفاع کیا، اگر وہ اللہ کے حضور توبہ و استغفار کریں تو اللہ ان کے گناہوں کو معاف کردے گا، کیونکہ وہ غفور رحیم ہے۔ اور چونکہ قرآن کریم میں ہمیشہ اعتبار عموم لفظ کا ہوتا ہے خصوص کا نہیں۔ اس لیے یہ حکم سب کے لیے ہے، اور جو کوئی کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، تو اس کا وبال اسی کے سر پر ہوتا ہے، اس کی وجہ سے کسی دوسرے کا مواخذہ نہیں ہوگا، اور جو کوئی کسی غلطی یا گناہ کا ارتکاب کر کے کسی دوسرے کے سر ڈال دیتا ہے، جیسا کہ بنی ابیرق نے یہودی کو متہم کردیا، حالانکہ وہ بری تھا، تو اس نے بہتان دھرا اور عظیم گناہ کا ارتکاب کیا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر اپنے احسانات یاد دلائے ہیں کہ اگر اللہ اپنے فضل و کرم سے بذریعہ وحی بتا نہ دیتا کہ چور یہودی نہیں بلکہ ابن ابیرق ہے، تو آپ نے بے گناہ کا ہاتھ کاٹ لیا ہوتا، اور اس کذب بیانی کا وبال انہی جھوٹوں کے سر ہوگا، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو اس کا نقصان نہیں پہنچے گا، اس لیے کہ آپ کو حقیقت حال کا علم نہیں تھا، اللہ کا اپنے رسول پر یہ بھی احسان ہے کہ اس نے آپ کو قرآن کریم اور سنت جیسی نعمت عطا کی، اور دین و شریعت کے وہ امور سکھائے جنہیں آپ پہلے سے بالکل نہیں جانتے تھے۔ فخر الدین رازی نے لکھا ہے : یہ آیت دلیل ہے کہ علم سے بڑھ کر کوئی نعمت، کوئی شرف اور کوئی منقبت نہیں۔