إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
جو لوگ (دشمنوں کے ساتھ رہ کر) اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کر رہے ہیں، ان کیر وح قبض کرنے کے بعد فرشتے ان سے پوچھیں گے "تم کس حال میں تھے؟ "(یعنی دین کے اعتبار سے تمہارا حال کیا تھا؟) وہ جواب میں کہیں گے "ہم کیا کرتے؟ ہم ملک میں دبے ہوئے اور بے بس تھے" (یعنی بے بسی کی وجہ سے اپنے اعتقاد و عمل کے مطابق زندگی بسر نہیں کرسکتے تھے) اس پر فرشتے کہیں گے (اگر تم اپنے ملک میں بے بس ہو رہے تھے تو) کیا خدا کی زمین سیع نہ تھی کہ کسی دوسری جگہ ہجرت کرکے چلے جاتے غرض کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہوا، اور اور جس کا ٹھکانا دوزخ ہو تو) کیا ہی بری جگہ ہے
104۔ اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جنہوں دار الکفر (مکہ) اور اس کے گرد و نواح سے دار السلام (مدینہ) کی طرف ہجرت نہیں کی، دشمن کی طرف سے ہر ظلم و ستم کو برداشت کیا، اور اللہ کی جیسی عبادت کرنی چاہئے تھی ویسی عبادت نہیں کی، انہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ پر ظلم کرنے والا بتایا ہے فرشتے ایسے لوگوں سے ان کی روح قبض کرتے وقت پوچھیں گے کہ تم لوگوں نے یہاں سے ہجرت کیوں نہیں کی؟ تو وہ لوگ یہ عذر پیش کریں گے کہ ہم کمزور تھے، فرشتے کہیں گے کہ کیا اللہ کی زمین میں تم لوگوں کے لیے کشادگی نہیں تھی، جہاں تم ہجرت کر کے چلے جاتے، اور اللہ کی عبادت آزادی کے ساتھ کرتے؟ اللہ نے اس آیت میں ان کا ٹھکانا جہنم بتایا ہے۔ اس آیت کا پس منظر اور سبب نزول ابن عباس (رض) کی روایت کے مطاب جسے بخاری، ابن المنذر اور ابن جریر وغیرہم نے الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے، یہ ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) اور مہاجرین کے مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد مکہ میں کچھ ایسے لوگ باقی رہ گئے جو دل سے مسلمان تھے، لیکن کافروں کے ڈر سے انہوں نے اپنے اسلام کا اعلان نہیں کیا تھا اور تکلیف و آزمائش کے ڈر سے ہجرت بھی نہیں کی، جب جنگ بدر ہوئی تو کافروں کے ساتھ ایسے لوگ بھی گئے، ان میں سے کچھ لوگ مسلمانوں کے تیروں اور نیزوں سے مارے گئے، مسلمانوں نے ان کے بارے میں کہا کہ یہ لوگ تو مسلمان تھے اور مجبوراً میدانِ جنگ تک آئے تھے، اور ان کے لیے دعائے مغفرت بھی کی، تو یہ آیت نازل ہوئی، اور آخرت میں ان کا انجام بتا دیا گیا، البتہ اس انجام سے ان مردوں، عورتوں اور بچوں کو مستثنی قرار دیا گیا جو واقعی معذور تھے، جیسے کوئی اندھا تھا، کوئی لنگڑا تھا، کوئی بوڑھا ضعیف تھا، اور ان کی عورتیں، اور ان کے بچے، ہجرت کرنے سے مجبور تھے، ان کے بارے میں اللہ نے آیات 98، 99 میں بتایا کہ اللہ انہیں معاف کردے گا۔ حافظ سیوطی نے الاکلیل میں لکھا ہے کہ یہ آیت دار الکفر سے ہجرت کے وجوب کی دلیل ہے، اس سے صرف وہ شخص مستثنی ہوگا جو معذور ہوگا۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ اسلام میں دو قسم کی ہجرت واقع ہوئی ہے، ایک تو دار الکفر سے دار الامن کی طرف، جیسا کہ مصیبت زدگان مکہ کی حبشہ کی طرف دو بار ہجرت، اور مکہ سے مدینہ کی طرف مسلمانوں کی ابتدائے اسلام میں ہجرت، دوسری دار الکفر سے دار الایمان کی طرف ہجرت، یعنی جب نبی کریم (ﷺ) اور بہت سے مہاجرینِ مکہ مدینہ منورہ میں قیام پذیر ہوگئے، اس کے بعد مزید مسلمانوں کی مدینہ کی طرف ہجرت ہوئی۔ اس وقت ہجرت صرف مدینہ کے ساتھ خاص تھی۔ جب مکہ فتح ہوگیا، تو یہ خصوصیت ختم ہوگئی، اور کسی دار الکفر سے کسی دار الاسلام کی طرف ہجرت کا حکم قیامت تک کے لیے باقی رہ گیا۔