دَرَجَاتٍ مِّنْهُ وَمَغْفِرَةً وَرَحْمَةً ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
یہ اس کی طرف سے (ٹھرائے ہوئے) درجے ہیں اس کی بخشش اور رحمت ہے اور وہ (بڑا ہی) بخشنے والا رحمت رکھنے والا ہے
103۔ اس آیت میں مجاہدین کے لیے جو اجر عظیم ہے اسی کی تفصیل ہے، بخاری و مسلم نے ابوسعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جنت میں 100 درجے ہیں، جنہیں اللہ نے مجاہدین کے لیے تیار کیا ہے، ہر دو درجوں کے درمیان آسمان اور زمین کی مسافت ہے علماء نے اسی آیت جہاد سے استدلال کر کے کہا ہے کہ جہاد فرضِ عین نہیں ہے، اگر فرض عین ہوتا تو پھر بیٹھنے والوں کے لیے کسی فضیلت کا ذکر نہ ہوتا، آیت میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جہاد ان تمام اعمال سے افضل ہے جو جہاد میں شرکت نہ کرنے والے لوگ کرتے رہتے ہیں۔ سیوطی نے الاکلیل میں لکھا ہے کہ اس آیت میں مجاہدین کو تمام دوسرے لوگوں پر فضیلت دی گئی ہے، اور یہ بھی بیان کردیا گیا ہے جو لوگ واقعی جہاد میں شرکت کرنے سے معذور ہوتے ہیں ان کا درجہ بھی مجاہدین ہی کا ہے۔