لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا
مسلمانوں میں سے جو لوگ معذور نہیں ہیں اور بیٹھھے رہے ہیں (یعنی جہاد میں شریک نہیں ہوئے ہیں) وہ ان لوگوں کے برابر نہیں ہوسکتے جو اپنے مال سے اور اپنی جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں۔ اللہ نے مال و جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر باعتبار درجے کے فضیلت دی ہے اور (یوں تو) خدا کا وعدہ نیک سب کے لیے ہے (کسی کا بھی عمل نیک ضائع نہیں ہوسکتا لیکن درجے کے اعتبار سے سب برابر نہیں) اور (اسی لیے) بیٹھ رہنے والوں کے مقابلے میں جہاد کرنے والوں کو ان کے بڑے اجر میں بھی اللہ نے فضیلت عطا فرمائی
102۔ گذشتہ آیتوں میں مؤمنوں کو جہاد کی ترغیب دلائی گئی ہے، اب ان کے درجات کا بیان ہورہا ہے، اور یہاں وہ مجاہدین مراد ہیں جنہوں نے جنگ بدر میں شرکت کی تھی، اور وہ لوگ جو کسی مجبوری کی وجہ سے اسے میں شریک نہ ہوسکے تھے۔ بخاری نے براء بن عازب (رض) سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے زید بن ثابت کو بلایا، اور انہیں املاء کرایا، عبداللہ بن ام مکتوم نابینا صحابی رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے پیچھے کھڑے تھے، انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ ! اللہ کی قسم اگر میں جہاد کرسکتا تو ضرور کرتا، تو فورا نازل ہوا۔ اس پر مزید روشنی انس بن مالک (رض) کی اس حدیث سے پڑتی ہے جسے احمد، بخاری اور ابوداود نے روایت کی ہے کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے غزوہ تبوک سے واپس ہوتے ہوئے راستہ میں فرمایا کہ مدینہ میں کچھ ایسے لوگ رہ گئے ہیں جو تمہارے ساتھ پورے سفر میں رہے ہیں، صحابہ نے پوچھا کہ یارسول اللہ ! اگرچہ وہ مدینہ میں رہ گئے ہیں؟ آپ نے کہا، ہاں، جنہیں کسی عذر نے آنے سے روک دیا ہے