سَتَجِدُونَ آخَرِينَ يُرِيدُونَ أَن يَأْمَنُوكُمْ وَيَأْمَنُوا قَوْمَهُمْ كُلَّ مَا رُدُّوا إِلَى الْفِتْنَةِ أُرْكِسُوا فِيهَا ۚ فَإِن لَّمْ يَعْتَزِلُوكُمْ وَيُلْقُوا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ وَيَكُفُّوا أَيْدِيَهُمْ فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ ۚ وَأُولَٰئِكُمْ جَعَلْنَا لَكُمْ عَلَيْهِمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا
ان کے علاوہ کچھ لوگ تمہیں ایسے بھی ملیں گے جو (لڑائی کے خواہشمند نہیں ہیں) تمہاری طرف سے بھی امن میں رہنا چاہتے ہیں، اور اپنی قوم کی طرف سے بھی۔ لیکن جب کبھی فتنہ و فساد کی طرف لوٹا دیے جائیں تو اوندھے منہ اس میں گر پڑیں (اور اپنی جگہ قائم نہ رہ سکیں) سو اگر ایسے لوگ کنارہ کش نہ ہوجائیں اور تمہاری طرف پیام صلح نہ بھیجیں اور نہ لڑائی سے ہاتھ روکیں تو انہیں بھی گرفتار کرو، اور جہاں کہیں پاؤ قتل کرو۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے برخلاف ہم نے تمہیں کھلی حجت (جنگ) دے دی ہے
98۔ اس آیت کریمہ میں ایک تیسرے قسم کے لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہے، جو بہت ہی بدترین قسم کے منافقین تھے اور ان کی نیت مذکورہ بالا جماعت منافقین و کفار سے مختلف تھی، یہ لوگ رسول اللہ (ﷺ) اور صحابہ کرام کے سامنے اسلام کا اظہار کرتے تھے، تاکہ مسلمانوں کی جانب سے ان کی جان، مال اور ان کی اولاد محفوظ رہے، اور اندر اندر کافروں کے ساتھ دوستی رکھتے تھے، اور ان کے بتوں کی پوجا کرتے تھے، تاکہ ان کی مخالفت مول نہ لیں۔ ابن جریر نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ یہ آیت اہل مکہ میں سے ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جو دوغلی پالیسی پر عمل کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں گرفتار کرنے اور قتل کرنے کا حکم دیا۔ امام رازی نے لکھا ہے، بہتوں کے نزدیک یہ آیت دلیل ہے کہ جو کفار صلح کی خواہش کا اظہار کریں اور مسلمانوں کو ایذ انہ پہنچائیں تو ان سے قتال کرنا جائز نہیں ہے۔