فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
نہیں، ( اے پیغمبر) تمہارے پروردگار کی قسم ! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک یہ اپنے باہمی جھگڑوں میں تمہیں فیصل نہ بنائیں، پھر تم جو کچھ فیصلہ کرو اس کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں، اور اس کے آگے مکمل طور پر سر تسلیم خم کردیں۔
74۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم کھا کر کہا ہے کہ کوئی آدمی اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا، جب تک اپنے تمام امور میں رسول اللہ (ﷺ) کو فیصل نہیں مان لیتا، اس لیے کہ آپ کا فیصلہ وہ ربانی فیصلہ ہے، جس کے برحق ہونے کا دل میں اعتقاد رکھنا ضروری ہے، اور عمل کے ذریعہ بھی اس پر ایمان رکھنے کا ثبوت فراہم کرنا ضروری ہے۔ اسی لیے اللہ نے اس کے بعد فرمایا یہ ضروری ہے کہ لوگوں کا ظاہر وباطن اسے تسلیم کرلے۔ اور اس کی حقانیت کے بارے میں دل کے کسی گوشے میں بھی شبہ باقی نہ رہے اس کے شان نزول کے سلسلہ میں امام بخاری نے عروہ بن زبیر (رض) سے روایت کی ہے زبیر (رض) کا حرہ کے پانی کے بہاؤ کے بارے میں ایک انصاری سے اختلاف ہوگیا اور معاملہ رسول اللہ تک پہنچا، تو آپ نے کہا کہ اے زبیر ! زمین سیراب ہوجانے کے بعد اپنے پڑوسی کی طرف پانی کھول دو، تو انصاری نے کہا، یا رسول اللہ ! کیا آپ نے ایسا فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ زبیر آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں؟ اس پر آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، اور کہا کہ اے زبیر ! زمین کو سیراب کرو اور پانی کو روک رکھو، یہاں تک کہ پانی تمہاری زمین کی دیوار سے لگ جائے، اس کے بعد اپنے پڑوسی کی طرف پانی کھول دو۔ جب انصاری نے رسول اللہ (ﷺ) کو ناراض کردیا تو آپ نے زبیر کو صراحت کے ساتھ ان کا پورا حق دیا، حالانکہ پہلے آپ نے دونوں کو ایسا مشورہ دیا تھا جس میں انصاری کی رعایت کی گئی تھی۔ بعد میں زبیر کہا کرتے تھے کہ میں سمجھتا ہوں یہ آیتیں اسی واقعہ سے متعلق نازل ہوئی تھیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس آیت کے شان نزول کے بارے میں کلبی کی تفسیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایک منافق اور ایک یہودی کے درمیان جھگڑا تھا، یہودی نے کہا کہ ہم لوگ محمد کے پاس چلیں، اور منافق نے کہا کہ کعب بن اشرف کے پاس چلیں۔ پھر پورا قصہ بیان کیا، جس میں آتا ہے کہ عمر (رض) نے منافق کو قتل کردیا اور یہی ان آیتوں کے نزول کا سبب تھا اور عمر کا لقب فاروق پڑ گیا اس کی سند اگرچہ ضعیف ہے۔ لیکن مجاہد نے اس کی تائید کی ہے، اور طبری نے اسے ترجیح دی ہے، تاکہ ان تمام کا تعلق ایک ہی سبب سے ہوجائے حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ ممکن ہے زبیر اور ان کے پڑوسی کا قضیہ بھی انہی دنوں پیش آیا ہو نبی کریم (ﷺ) کی احادیث مبارکہ کی اہمیت کو ذہن نشیں کرنے کے لیے بعض علمائے اسلام کے اقوال ملاحظہ کرلیں، 1۔ فخرالدین رازی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم کھا کر کہا ہے کہ کوئی آدمی مؤمن ہو ہی نہیں سکتا، جب تک کہ اس کے اندر مندرجہ ذیل شرطیں نہ پائی جائیں الف۔ رسول اللہ (ﷺ) کے فیصلہ سے راضی ہونا ب۔ دل میں اس بات کا یقین رکھنا کہ رسول اللہ (ﷺ) کا فیصلہ ہی برحق ہے ج۔ رسول اللہ (ﷺ) کے فیصلہ کو قبول کرنے میں ذرا سا بھی تردد سے کام نہ لینا اس کے بعد لکھا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) کی ہر صحیح حدیث اس آیت کے ضمن میں آتی ہے، اور ہر وہ شخص جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے، اس پر واجب ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) کی ہر صحیح حدیث کو قبول کرے، اور مذہبی تعصب کی وجہ سے کسی حدیث کو رد نہ کرے، ورنہ اس آیت میں مذکور وعید اس کو بھی شامل ہوگی۔ 2۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اعلام الموقعین میں لکھا ہے کہ تم بہتوں کو دیکھو گے کہ جب کوئی حدیث اس امام کے قول کے موافق ہوتی ہے جس کی وہ تقلید کرتا ہے، اور اس کے راوی کا عمل اس کے خلاف ہوتا ہے، تو وہ کہتا ہے کہ دلیل راوی کی روایت ہے، اس کا عمل نہیں اور جب راوی کا عمل اس کے امام کے قول کے موافق ہوتا ہے اور حدیث اس کے مخالف ہوتی ہے، تو وہ کہتا ہے کہ راوی نے اپنی روایت کی مخالفت اس لیے کی ہے کہ یہ حدیث اس کے نزدیک منسوخ ہوگئی ہے، ورنہ اس کی یہ مخالفت اس کی عدالت کو ساقط کردیتی، اس طرح وہ لوگ اپنے کلام میں ایک ہی جگہ اور ایک ہی باب میں بدترین تناقض کے مرتکب ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارا ایمان یہ ہے کہ صحیح حدیث آجانے کے بعد امت کے لیے اسے چھوڑنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ 3۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن، سنت اور اجماع کے ذریعہ یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اللہ نے بندوں پر اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کو فرض کیا ہے، اوامر و نواہی میں اللہ نے رسول اللہ (ﷺ) کے علاوہ اس امت پر کسی کی اطاعت کو فرض نہیں کیا ہے۔ اسی لیے ابوبکر صدیق (رض) (جو نبی کریم (ﷺ) کے بعد امت کے سب سے افضل انسان تھے) کہا کرتے تھے کہ میں جب تک اللہ کی اطاعت کروں، تم لوگ میری اطاعت کرو، اور اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں تو تم لوگ میری اطاعت نہ کرو، تمام علمائے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) کے علاوہ کوئی معصوم نہیں، اسی لیے بہت سے ائمہ کرام نے کہا ہے کہ ہر آدمی کی کوئی بات لی جائے گی اور کوئی چھوڑ دی جائے گی، سوائے رسول اللہ (ﷺ) کے ، اور یہی وجہ تھی کہ فقہی مذاہب کے چاروں مشہور اماموں نے لوگوں کو ہر بات میں اپنی تقلید کرنے سے منع فرمایا تھا۔