وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا
اور ہم نے کوئی رسول اس کے سوا کسی اور مقصد کے لیے نہیں بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ اور جب ان لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، اگر یہ اس وقت تمہارے پاس آکر اللہ سے مغفرت مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو یہ اللہ کو بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان پاتے۔
72۔ گذشتہ آیتوں میں منافقین کا ایک بڑا جرم بیان کرنے کے بعد کہ رسول اللہ (ﷺ) کے بجائے کاہنوں کے پاس فیصلہ کے لیے گئے، یہاں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کی اطاعت کی مزید تاکید فرمائی ہے کہ ہم کسی رسول کو اسی لیے بھیجتے ہیں کہ اس کی اطاعت کی جائے، اور یہ چیز بغیر توفیق الٰہی کے حاصل نہیں ہوتی، معلوم ہوا کہ رسول اکی اطاعت فرض ہے، اور اس کی فرضیت کا انکار کفر ہے۔ 73۔ اللہ نے فرمایا کہ ان منافقین نے رسول اللہ (ﷺ) کے بجائے کاہنوں اور طاغوتوں کو اپنا فیصل مان کر اپنے آپ پر بڑا ظلم کیا، کہ نفاق کے عذاب کے ساتھ ایک اور عذاب الٰہی کے مستحق بنے۔ اس عذاب سے بچنے کا ایک ہی راستہ تھا کہ اپنے نفاق اور اس جرم عظیم سے تائب ہو کر آپ کے پاس آتے، اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے، اور آپ بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے، تو اللہ ان کے گناہوں کو معاف کردیتا آیت کا تعلق منافقین کے ایک خاص واقعہ سے ہے جس کا اوپر بیان ہوچکا کہ نفاق کی بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے، رسول اللہ (ﷺ) کے بجائے کاہنوں کو اپنا فیصل مانا، ورنہ عام حالات میں توبہ کے لیے یہ شرط نہیں تھی کہ مسلمان رسول اللہ (ﷺ) کے پاس آتے اور ان کے ساتھ رسول اللہ (ﷺ) بھی ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے۔ اسی لیے رسول اللہ (ﷺ) کی زندگی میں ایسا اور کوئی واقعہ نہیں ملتا۔ بعض مبتدعہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) کی قبر کے پاس آکر طلب مغفرت کی دعا کرنا، ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ کی زندگی میں آپ کے پاس آکر مغفرت طلب کرنا تھا، اس لیے کہ وہ رسول اللہ (ﷺ) کو قبر میں ایسا ہی زندہ سمجھتے ہیں، جیسے موت سے پہلے تھا، کہتے ہیں کہ صرف ایک حجاب حائل ہوگیا ہے، اور اسی آیت سے استدلال کرتے ہیں، قرآن کریم میں یہ تحریف معنوی ہے، اور رسول اللہ (ﷺ) کی وفات کے بارے میں قرآن و سنت کے سراسر خلاف عقیدہ ہے