قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا
اے نبی (ان سے) کہہ دیجئے کہ میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنوں کے ایک گروہ نے (مجھے قرآن پڑھتے) غور سے سنا پھر (جاکر اپنی قوم کے لوگوں سے کہا) کہ ہم نے بڑا ہی عجیب (قسم کا) قرآن سنا ہے
(1) امام احمد، بخاری، مسلم اور ترمذی وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (ﷺ) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ سوق عکاظ کی طرف روانہ ہوئے (جو اس زمانہ میں مکہ سے قریب ہی ایک بازار تھا) اس وقت شیاطین کو چھپ کر آسمان کی خبر سننے سے روک دیا گیا تھا اور اس کی کوشش کرنے والے شیاطین کو انگاروں سے مارا جانے لگاتھا، جب شیاطین بے مراد واپس آئے، تو ان کے ساتھیوں نے ان سے پوچھا کہ ماجرا کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ اب ہمیں آسمان کی خبر سننے سے قطعی طور پر روک دیا گیا ہے اور ہمیں انگاروں سے مارا جانے لگا ہے، شیاطین نے کہا : ضرور کوئی نئی بات ہوئی ہے جس کے سبب ہمیں آسمان کی خبریں سننے سے روک دیا گیا ہے۔ اس لئے تم مشرق و مغرب میں ہر طرف جاؤ اور حقیقت حال کا پتہ لگاؤ۔ چنانچہ جو شیاطین تہامہ کی طرف گئے وہ رسول اللہ (ﷺ) کے پاس وادی نخلہ میں پہنچ گئے آپ (ﷺ) سوق عکاظ جانا چاہتے تھے اور اس وقت صحابہ کرام کے ساتھ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے جنوں نے آپ کی تلاوت غور سے سننے کے بعد کہا کہ یہی وہ قرآن ہے جس نے ہمیں اب آسمان کی خبریں سننے سے روک دیا اور وہ مسلمان ہوگئے جب وہ جن اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے کہا، اے ہماری قوم ! ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔ اسی موقع سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (ﷺ) پر ﴿قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ Ĭ نازل فرمایا۔ ماوری نے لکھا ہے : 1:بظاہر جنوں نے آپ کی زبانی قرآن سنتے ہی اسلام کو قبول کرلیا تھا۔ 2: نبی کریم (ﷺ) انسانوں کی طرح جنوں کے لئے بھی رسول بنا کر مبعوث ہوئے تھے۔ 3: قریش کو بتایا گیا ہے کہ جنوں نے قرآن سن کر اس کی معجزانہ شان کا اعتراف کرلیا اور رسول کریم (ﷺ) پر فوراً ایمان لے آئے۔ 4:انسانوں کی طرح جن بھی احکام شرعیہ کے مکلف ہیں۔ 5:جن ہماری باتیں سنتے ہیں اور ہماری زبانیں سمجھتے ہیں۔