يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ
اے بنی اسرائیل ! میری نعمتیں یاد کرو جن سے میں نے تمہیں سرفراز کیا تھا اور (خصوصا) یہ (نعمت) کہ دنیا کی قوموں پر تمہیں فضیلت دی تھی
101: نعمتوں کا بالمعموم ذکر کرنے کے بعد اب ایک خاص نعمت کا ذکر کیا گیا ہے اور خطاب اگرچہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے زمانے کے یہود سے ہے، لیکن مراد ان کے آباء واجداد ہیں اور (عالم) سے مراد اس دور کا عالم ہے، اور فضیلت دینے سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے ان میں رسولوں کو بھیجا، کتابیں اتاریں، اور انہیں بادشاہت عطا کی۔ اس لیے آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ اے یہود مدینہ میں نے تمہارے آباء و اجداد کو ان کے دور کے دوسرے لوگوں پر فضیلت دی۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہی معنی مراد لینا ضروری ہے کیونکہ امت محمدیہ ان سے بلاشبہ افضل ہے، جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے آیت ، یعنی اے مسلمانو ! تم بہترین لوگ ہو جو پیدا کیے گئے ہو، لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو، اور برائیوں سے روکتے ہو، اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہل کتاب بھی ایمان لے آتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا (آل عمران :110)