يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا
اے ایمان والو ! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو اس وقت تک نماز کے قریب بھی نہ جانا جب تک تم جو کچھ کہہ رہے ہو اسے سمجھنے نہ لگو۔ (٣٢) اور جنابت کی حالت میں بھی جب تک غسل نہ کرلو، (نماز جائز نہیں) الا یہ کہ تم مسافر ہو (اور پانی نہ ملے تو تیمم کر کے نماز پڑھ سکتے ہو) اور اگر تم بیمار ہو یا سفر پر ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت کی جگہ سے آیا ہو یا تم نے عورتوں کو چھوا ہو، پھر تم کو پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلو، اور اپنے چہروں اور ہاتھوں کا (اس مٹی سے) مسح کرلو۔ بیشک اللہ بڑا معاف کرنے والا بڑا بخشنے والا ہے۔
اس آیت کے شان نزول کے بارے میں ابو داود، نسائی اور ترمذی وغیرہم نے حضرت علی (رض) سے (الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ) روایت کی ہے کہ عبدالرحمن بن عوف نے شراب حرام ہونے سے پہلے کچھ مہاجرین و انصار کی دعوت کی، انہوں نے کھایا پیا اور شراب بھی پی، جب نماز کا وقت آیا، تو عبدالرحمن بن عوف نے نماز پڑھائی اور نشہ کی حالت میں لا نافیہ کو حذف کردیا جس سے آیتوں کا معنی بالکل بدل گیا، تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ مسلمانو ! تم جب نشہ کی حالت میں ہو تو نماز نہ پڑھا کرو، انتہی۔ چنانچہ مسلمانوں نے نماز کے اوقات میں شراب پینا بند کردیا، اس کے کچھ دنوں کے بعد سورۃ مائدہ کی آیت 90، 91 سے تک نازل ہوئی۔ اور شراب ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئی۔ 51۔ جنبی کے لیے مسجد میں جانا ممنوع ہے، البتہ اگر اس کا راستہ مسجد سے گذرتا ہو تو گذرنا جائز ہے۔ ابن جریر و غیرہ نے روایت کی ہے کہ بعض صحابہ کے مکانات کے دروازے مسجد نبوی میں کھلتے تھے، اور انہیں مسجد سے گذرنا پڑتا تھا، انہی کے بارے میں آیت کا یہ حصہ نازل ہوا، کہ حالت جنابت میں مسجد سے ہو کر گذرنا ان لوگوں کے لیے جائز ہے جن کے گھر کے دروازے مسجد میں کھلتے ہوں۔ 52۔ اگر بیماری کی وجہ سے پانی کے استعمال سے مرض میں اضافہ کا خطرہ ہو، یا کوئی آدمی سفر میں ہو، یا پیشاب یا قضائے حاجت کی وجہ سے وضو جاتا رہے، یا بیوی کے ساتھ ہمبستری کرے، یا شہوت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرے، اور غسل یا وضو کے لیے پانی میسر نہ ہو، تو ایسی حالتوں میں اللہ تعالیٰ نے تیمم کو غسل اور وضو کے بدلے میں کافی قرار دیا ہے۔ اور تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ پاک مٹی پر دونوں ہاتھوں کو ایک ساتھ مارے، پھر انہیں اپنی دونوں ہتھیلیوں اور چہرہ پر پھیر لے۔ اس کی دلیل عمار بن یاسر (رض) کی وہ حدیث ہے جسے احمد، بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے کہا، تیمم کے لیے ایسا کرنا کافی تھا، پھر آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے دونوں ہاتھوں کو زمین پر ایک بار مارا، پھر انہیں اپنی دونون ہتھیلیوں اور چہرہ پر پھیر لیا۔ حافظ ابن لقیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تیمم کے لیے ایک ہی بار دونوں ہتھیلیوں اور چہرہ پر ہاتھ پھیرتے تھے، کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں کہ آپ نے تیمم کے لیے مٹی پر دوبارہ ہاتھ مارا، یا کہنی تک ہاتھ پھیرا،