فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَأَنفِقُوا خَيْرًا لِّأَنفُسِكُمْ ۗ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
لہذا جس قدر تم میں استطاعت ہو، اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، اور اسکاحکم سنو اور اطاعت بجالاؤ اور اپنے مال خرچ کرتے رہو یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا اور جو لوگ نفسانی بخل سے محفوظ رہے بس وہی فلاح پانے والے لوگ ہیں
(16) جب مؤمنوں کو حکم دیا گیا کہ وہ مال و اولاد کے فتنہ میں نہ پڑیں اور ان کی محبت پر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو ترجیح دیں تو یہ بتا دینا بھی ان کے مناسب حال رہا کہ اللہ تعالیٰ ان سے ان کی طاقت سے زیادہ ڈرنے اور عمل صالح کا مطالبہ نہیں کرتا، اور یہ کہ وہ افراط و تفریط سے بچتے ہوئے اعتدال کی راہ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگو ! تم جتنی طاقت رکھتے ہوا تنا اللہ سے ڈرتے رہو اور اللہ کے اوامر کو خوب اچھی طرح سمجھو اور ان پر عمل کرو اور اللہ نے تمہیں جو مال و دولت دیا ہے، اس میں سے اس کی راہ میں خرچ کرو، اسی میں تمہارے لئے خیر و فلاح ہے اور جان رکھو کہ آخرت میں فلاح و نجاح پانے والے صرف وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ مال و دولت کی شدید لالچ، اس کی بندگی اور بخل کی بیماری سے بچا لے، جس کے نتیجے میں وہ اللہ کا دیا ہوا مال اس کی راہ میں خرچ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس آیت کریمہ سے فقہائے اسلام استدلال کرتے ہیں کہ ہر وہ عمل واجب جس کے کرنے سے بندہ عاجز ہوجائے اس کا کرنا اس سے ساقط ہوجاتا ہے اور جس عمل کے بعض حصہ کی اسے قدرت ہو اور بعض حصہ کے کرنے سے عاجز رہے، تو وہ صرف اپنی طاقت و قدرت کے مطابق عمل کا ہی مکلف ہوگا اور باقی اس سے ساقط ہوجائے گا جیسا کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا ہے کہ ” میں جب تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو اپنی طاقت کے مطابق اس پر عمل کرو“