سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
جو چیز بھی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرنے میں لگی ہوئی ہے اور وہی غالب اور بڑی حکمت والا ہے (١)۔
(1) بعینہ یہی آیت سورۃ الحشر کی پہلی آیت ہے اور سورۃ الحدید کی بھی پہلی آیت یہی ہے، صرف اس میں کے بجائے İ وَ الْأَرْضِ Ĭ ہے۔ دونوں سورتوں کی اس پہلی آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جتنے حیوانات، نباتات اور جمادات ہیں، سب اپنے رب کی پاکی اور بڑائی بیان کرتے ہیں کوئی اپنی زبان سے تسبیح پڑھتا ہے جیسے فرشتے اور جن و انس، اور کسی کی ہئیت و حالت سے آشکار ہوتا ہے کہ اس کا خلاق تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے، جیسے آسمان و زمین، درخت، نباتات اور پہاڑ وغیرہ ۔زجاج کہتے ہیں کہ نباتات و جمادات بھی زبان قال سے ہی تسبیح پڑھتے ہیں لیکن ہم اسے سمجھ نہیں پاتے ہیں۔ آیت کے آخر میں اللہ کی دو صفات : کا ذکر آیا ہے، جن کا مفہوم یہ ہے کہ وہ بڑا ہی قوی ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز پر غالب ہے اور اس نے تمام موجودات کو اپنی جانی بوجھی حکمت کے مطابق منظم و مرتب کیا ہے، جس سے کوئی بھی چیز سرمو انحراف نہیں کرسکتی ہے۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ کا لفظ کئی سورتوں کی ابتدا میں آیا ہے کہیں ماضی کا صیغہ آیا ہے اور کہیں مضارع کا اور کہیں امر کا صیغہ آیا ہے اور اس سے مقصود بندوں کو یہ تعلیم دینا ہے کہ اللہ کی پاکی اور بڑائی ہر حال میں بیان کرنی ہے۔