وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۚ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلًا
اور جن عورتوں سے تمہارے باپ دادا (کسی وقت) نکاح کرچکے ہوں، تم انہیں نکاح میں نہ لاؤ، البتہ پہلے جو کچھ ہوچکا وہ ہوچکا۔ (١٨) یہ بڑی بے حیائی ہے، گھناؤنا عمل ہے، اور بے راہ روی کی بات ہے۔
29۔ یہاں سے اللہ تعالیٰ نے شادی کے محرمات کو بیان کرنا شروع کیا ہے، سب سے پہلے باپ کی منکوحہ کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ اے مسلمانو ! تم اس سے شادی نہ کرو، اور جس کسی نے زمانہ جاہلیت میں ایسا کیا اور اسلام لانے کے بعد فوراً اس سے باز آگیا، تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف کردے گا، باپ کی منکوحہ سے شادی کرنا بدترین خصلت ہے، اس لیے کہ یہ ماں سے شادی کرنے کی مانند ہے، اور یہ حرکت اللہ اور اس کے مروت والے بندوں کے نزدیک بہت ہی مبغوض، اور بہت ہی برا چلن ہے، اس لیے کہ یہ باپ کی عزت سے کھلواڑ ہے۔ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ ایسی حرکت کرنے والا، اسلام سے مرتد مانا جائے گا، اس لیے اسے قتل کردیا جائے گا، اور اس کا مال بیت المال میں دے دیا جائے گا۔ امام احمد نے براء بن عازب (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے ان کے چچا حارث بن عمرو کو ایک ایسے آدمی کو قتل کردینے اور اس کے مال پر قبضہ کرلینے کے لیے بھیجا، جس نے اپنے باپ کی بیوی سے شادی کرلی تھی۔