لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ
جسے پاکیزہ ہستیوں کے سوا کوئی چھو نہیں سکتا
(24) اس آیت کریمہ کے معنی و مفہوم میں علماء کے کئی اقوال ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ” مس“ سے مراد ہاتھ سے چھونا ہے، یا اس پر مطلع ہونا، یا اس سے فائدہ اٹھانا ہے اور ” مطھرون“ سے مراد فرشتے ہیں یا اہل تقویٰ یا نجات وحدث اکبر وحدث اصغر سے پاک لوگ اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ ” مطھرون“ سے مراد فرشتے ہیں اور ” مس“ سے مراد اس پر مطلع ہونا ہے ابن زید کہتے ہیں کفار قریش کہتے تھے کہ یہ قرآن شیاطین کا نازل کردہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کی اور کہا : کہ ” اس پر تو صرف فرشتے مطلع ہوتے ہیں“ شیاطین کو اس کی ہوا بھی نہیں لگتی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الشعراء آیات (210، 211، 212) میں فرمایا ہے : ” اس قرآن کو شیطانوں نے نہیں اتارا ہے، وہ تو اس کام کے لائق ہی نہیں ہیں، نہ وہ اس کی استطاعت رکھتے ہیں، بے شک شیاطین سننے سے یکسر محروم کردیئے گئے ہیں۔ “ فرا ء نے اس کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ اس سے صرف اہل ایمان ہی فائدہ اٹھاتے ہیں محمد بن الفضل کا بھی یہی قول ہے ایسے تمام لوگ کہتے ہیں کہ اس آیت سے اس پر استدلال صحیح نہیں ہے کہ جنبی، حائضہ، نفساء اور حدث اصغر والے کے لئے قرآن کو چھونا صحیح نہیں ہے۔ البتہ اس پر اجماع ہے کہ حدث اکبر والے آدمی کے لئے قرآن کو چھوناجائز نہیں ہے۔ کچھ دوسرے لوگوں کی رائے ہے کہ ” مطھرون“ سے مراد جنابت وحدث سے پاک لوگ ہیں اور مقصود مصحف کو ان حالتوں میں چھونے کی ممانعت ہے ان حضرات نے محمد بن عمرو بن حزم کی روایت ” لایمس القرآن الا الطاھر“ ” قرآن کو صرف پاک آدمی چھوئے“ سے استدلال کیا ہے جسے امام مالک نے روایت کی ہے۔ نیز دارقطنی کی اس حدیث سے بھی استدلال کیا یہ جس میں عمر (رض) کے اسلام لانے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے اور ان کی بہن نے ان سے کہا تھا کہ وہ ناپاک ہیں اور قرآن کو صرف پاک لوگ چھوتے ہیں، علی، ابن مسعود، عطاء، زہری، نخعی، مالک، شافعی اور حنابلہ وغیرہم کی یہی رائے ہے۔ لیکن یہ دونوں حدیثیں سند کے اعتبار سے کمزور ہیں، حافظ ابن حجر نے تلخیص الجبیر میں، حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں، اور شوکانی نے ” نیل الاوطار“ میں دونوں کے کمزور ہونے کے اسباب ووجوہ کی وضاحت کردی ہے، اس لئے یہ دونوں حدیثیں لائق استدلال نہیں ہیں اور نہ قرآن کریم کی اس آیت سے اس پر استدلال صحیح ہے کہ جنبی، حائضہ، نفساء اور حدث اصغر والا آدمی قرآن کو نہیں چھوئے گا، اس لئے کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ آیت میں ” مطھرون“ سے مراد ملائکہ اور ” مس“ سے مراد اس پر مطلع ہونا یا اس کے فوائد و برکات سے مستفید ہونا ہے۔ البتہ اس پر اجماع امت ہے کہ حدث اکبر والے آدمی کے لئے قرآن کا چھونا جائز نہیں ہے۔ باقی رہا وہ آدمی جو حالت وضو میں نہ ہو، تو اس کے بارے میں امام ابن حزم نے اپنی کتاب ” الملحی“ میں امام ابن القیم نے ” البیان فی اقسام القرآن“ میں اور امام شوکانی نے ” نیل الاوطار“ میں اسی کو راجح قرار دیا ہے کہ وہ مصحف کو چھو سکتا ہے۔ اس لئے کہ اس کی ممانعت کی کوئی صحیح اور صریح دلیل نہیں پائی جاتی ہے ابن عباس، سلمان الفارسی (رض)، شعبی اور ابوحنیفہ وغیر ہم کی یہی رائے ہے۔