وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا
اور وہ لوگ (یتیموں کے مال میں خرد برد کرنے سے) ڈریں جو اگر اپنے پیچھے کمزور بچے چھوڑ کر جائیں تو ان کی طرف سے فکر مند رہیں گے۔ (٩) لہذا وہ اللہ سے ڈریں اور سیدھی سیدھی بات کہا کریں۔
11۔ علمائے تفسیر نے اس آیت کی کئی توجیہات بیان کی ہیں۔ پہلی توجیہہ یہ ہے کہ اس میں یتیموں کے اوصیاء کو کہا گیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کریں جیسا وہ چاہتے ہیں کہ ان کی وفات کے بعد ان کے چھوٹے بچوں کے ساتھ لوگ کریں۔ دوسری توجیہہ یہ ہے کہ یہ حکم مریض کی عیادت کرنے والوں کے لیے ہے، کہ اگر مریض اپنے مال میں بے جا تصرف کی وجہ سے اپنی اولاد کو نقصان پہنچا رہا ہو تو اسے روکیں۔ تیسری توجیہہ یہ ہے کہ یہ حکم ورثہ کے لیے ہے، کہ تقسیم وراثت کے وقت جو کمزور رشتہ دار، ایتام ومساکین موجود ہوں تو ان کا خیال کریں، یہ سوچ کر کہ اگر ان کی وفات کے بعد ان کے چھوٹے بچے ہوتے تو کیا وہ چاہتے کہ کوئی انہیں صدقہ و احسان سے محروم کردے۔ چوتھی توجیہہ یہ ہے کہ وصیت کرنے والا ورثہ کا خیال رکھے اور وصیت میں حد سے تجاوز نہ کرے،۔ جیسا کہ حدیثِ سعد بن وقاص میں آیا ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے انہیں ایک ثلث سے زیادہ مال کی وصیت کی اجازت نہیں دی۔ ابن جریر، ابن کثیر، اور رازی وغیرہم نے پہلی توجیہہ کو ترجیح دی ہے، اور کہا ہے کہ سیاق و سباق کی آیتیں اسی رائے کی تائید کرتی ہیں۔