وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا
اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے د یا کرو۔ ہاں ! اگر وہ خود اس کا کچھ حصہ خوش دلی سے چھوڑ دیں تو اسے خوشگواری اور مزے سے کھالو۔
5۔ آیت میں کلمہ نحلہ کا معنی عائشہ نے فریضہ کیا ہے، اور ابن زید نے واجب کیا ہے، یعنی شادی کے وقت عورت کا مہر مقرر کرنا واجب ہے، نبی کریم (ﷺ) کے علاوہ امت کے کسی فرد کے لیے بغیر مہر کے شادی کرنا جائز نہیں ہے اور مہر کی تعیین کے وقت نیت بھی صحیح ہونی چاہئے کہ یہ عورت کا حق ہے جو اسے ملنا چاہئے ، زمانہ جاہلیت میں لوگ عورتوں کا مہر خود لے لیتے تھے اور انہیں کچھ بھی نہیں دیتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کے اسی فعل شنیع کی تردید کی، اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ شادی کے وقت عورتوں کا مہر ضرور متعین کریں، اور ان کا حق ان کو ضرور دیں، اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اگر بیوی طیب نفس کے ساتھ مہر کا کچھ حصہ شوہر کو دے دے، تو اس کا استعمال جائز ہوگا، آیت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر بیوی حیا کی وجہ سے، یا شوہر کی بد اخلاقی یا برے برتاؤ کے ڈر سے ایسا کرتی ہے، اور شوہر اسے قبول کرلیتا ہے، تو یہ قرآنی تعلیم کی خلاف ورزی ہوگی۔