سورة القمر - آیت 1

اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

قیامت قریب آپہنچی اور چاند پھٹ گیا (١۔ ٢)

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(1) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دو باتوں کی خبر دی ہے ایک تو یہ کہ قیامت قریب ہوچکی ہے اور دوسری یہ کہ چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا تھا اور دونوں ہی باتوں کی تائید نبی کریم (ﷺ) کی صحیح احادیث سے ہوتی ہے۔ قرب قیامت کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ نے دوسری کئی آیتوں میں بھی خبر دی ہے۔ سورۃ النحل آیت (1) میں آیا ہے : ” اللہ کا حکم آچکا ہے، پس تم لوگ اس کی جلدی نہ مچاؤ“ اور سورۃ الانبیاء آیت (1) میں آیا ہے : ” لوگوں کے حساب کا وقت آچکا ہے اور وہ غفلت میں پڑے دین حق سے منہ پھیر رہے ہیں۔ “ ابن جریر لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں لوگوں کو قرب قیامت کی خبر دے کر نبیہ کی گئی ہے کہ یہ دنیا عنقریب فنا ہوجائے گی، اس لئے قیامت کی ہولناکیوں سے نجات پانے کی تیاری کرنی چاہئے۔ امام احمد نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ (ﷺ) کے پاس بیٹھے تھے اور آفتاب عصر کے بعد غروب ہونے کے قریب تھا۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ جو لوگ دنیا سے گذر چکے ہیں، ان کی عمروں کے مقابلے میں تمہاری عمریں اتنی ہی باقی رہ گئی ہیں جتنا ابھی دن کا حصہ باقی رہ گیا ہے اور امام احمد نے سہل بن سعد (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ میں دنیا میں اس وقت مبعوث کیا گیا ہوں جب قیامت اس قدر قریب ہے جتنی میری یہ دونوں انگلیاں اور آپ (ﷺ) نے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی کی طرف اشارہ کیا۔ دوسری بات یعنی ” انشقاق قمر“ کے بارے میں جمہور علمائے امت کی رائے ہے کہ نبی کریم (ﷺ) کے مکی دور میں ہجرت سے تقریباً پانچ سال قبل نبی کریم (ﷺ) کے ایک عظیم معجزہ کے طور پر چاند دو ٹکڑے ہو کر جبل حراء کے دونوں طرف ہوگیا تھا اور بیچ میں پہاڑ آگیا تھا۔ قاضی عیاض نے مفسرین اور اہل سنت کا اس پر اجماع نقل کیا ہے اور ابن کثیر نے لکھا ہے کہ اس مضمون کی حدیثیں متواتر ہیں۔ ابن قتیبہ نے اپنی کتاب ” تاویل مختلف الحدیث“ میں لکھا ہے کہ نظام معتزلی نے ان احادیث کا بغیر دلیل انکار کیا ہے۔ زمخشری، بیضاوی اور ابوالسعود نے عطاء سے بھی اس طرح کا قول نقل کیا ہے، نظام نے کہا ہے کہ چاند قیامت کے دن پھٹے گا اس رائے کی بنیاد انکار سنت پر ہے۔ بخاری و مسلم اور دیگر ائمہ حدیث نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ اہل مکہ نے آپ (ﷺ) سے اپنے نبی ہونے کی نشانی کا مطالبہ کیا تو آپ (ﷺ) نے چاند کے دو ٹکڑے کر دکھائے، یہاں تک کہ لوگوں نے حرا پہاڑ کو دونوں ٹکڑوں کے درمیان دیکھا۔ بخاری و مسلم اور دیگر ائمہ حدیث نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) کے زمانہ میں چاند دو ٹکڑے ہوگیا تھا ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر اور دوسرا اس کے نیچے آگیا تھا آپ (ﷺ) نے لوگوں سے فرمایا :” دیکھو یا گواہ رہو“ اور مسلم و ترمذی نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ اسی معجزہ کے ظہور کے بعد آیت نازل ہوئی تھی۔ اور امام احمد، ترمذی اور حاکم وغیرہم نے جبیربن مطعم (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم لوگ نبی کریم (ﷺ) کے عہد میں تھے کہ چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا تھا ایک ٹکڑا ایک پہاڑ پر اور دوسرا ٹکڑا دوسرے پہاڑ پر، تو لوگ کہنے لگے کہ محمد نے ہم پر جادو کردیا ہے، ایک شخص نے کہا کہ اگر اس نے تمہیں مسحور کردیا ہے تو وہ تمام لوگوں کو مسحور نہیں کرسکے گا۔ یعنی اگر تمہارے علاوہ دوسروں نے بھی چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے تو تمہاری بات صحیح نہیں ہوگی کہ اس نے تم پر جادو کردیا ہے، بلکہ یہ اس کا معجزہ ہوگا۔