الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ ۚ هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَإِذْ أَنتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ ۖ فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَىٰ
جوکبائر اور بے حیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں الا یہ کہ کوئی معمولی گناہ ان سے سرزد ہوجائے۔ بلاشبہ تیرے رب کی بخشش بہت وسیع ہے وہ اس وقت تمہیں خوب جانتا ہے جب اس نے تم کو زمین سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹوں میں جنین تھے، لہذا خود ستائی نہ کیا کرو، وہی خوب جانتا ہے اس کو جو واقعی پرہیزگار ہے۔
(21) ان اچھے لوگوں کی صفات یہ ہیں کہ وہ ان واجبات کو ادا کرتے ہیں جن کا چھوڑنا بڑا گناہ ہے اور بڑے حرام کاموں سے بھی بچتے ہیں، مثلاً زنا، شراب نوشی، سود خوری، قتل نفس اور اسی طرح کے دیگر بڑے بڑے حرام کام البتہ ان سے کبھی کبھار بعض چھوٹے چھوٹے گناہ سرزد ہوجاتے ہیں۔ ” لم“ کا لغوی معنی ” قلیل و صغیر“ ہے۔ زجاج کا قول ہے کہ ” لم“ وہ گناہ ہے جس کا ارتکاب انسان سے کبھی کبھار ہوجاتا ہے اور اس پر اصرار نہیں کرتا ہے۔ جمہور اہل علم کے نزدیک اس سے مراد چھوٹے گناہ ہیں۔ ابوہریرہ (رض) نے اس کی مثال بوسہ، اشارہ کرنا اور دیکھنا بتایا ہے۔ ابن عباس (رض) سے اس کا معنی یہ منقول ہے کہ آدمی گناہ کے قریب جائے، پھر توبہ کرلے۔ اس قسم کے چھوٹے گناہوں کے ارتکاب سے آدمی اچھوں کی صف سے نہیں نکل جاتا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں معاف کردیتا ہے، اس لئے کہ اس کی رحمت بہت ہی وسیع ہے، جس کے اندر وہ اپنے ایسے تمام بندوں کو ڈھانک لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء آیت (31) میں فرمایا ہے : İإِنْ تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْĬ ” اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے جن سےتمہیں منع کیا گیا ہے باز رہو گے، تو ہم ضرور تمہارے (چھوٹے چھوٹے) قصور معاف کردیں گے“ اور نبی کریم (ﷺ) کی صحیح حدیث ہے :” پنجگانہ نمازیں اور جمعہ سے جمعہ تک اور رمضان سے رمضان تک ان کے درمیان کے گناہوں کو مٹا دیتے ہیں، جب تک آدمی بڑے گناہوں سے بچتا رہے“ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے انسانو ! تمہارا رب تمہاری کمزوریوں سے اس وقت سے خوب واقف ہے جب اس نے تمہارے باپ آدم کو مٹی سے پیدا کیا تھا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں پرورش پا رہے تھے، وہ جانتا ہے کہ تمہارے اندر نیکی کرنے کے جذبہ کے ساتھ گناہ کرنے کا جذبہ بھی پایا جاتا ہے، جب گناہ کا سبب پایا جائے گا تو تمہاری کشش اس کی طرف بڑھ جائے گی اسی لئے وہ اپنے فضل و کرم سے تمہارے چھوٹے گناہ معاف کردیتا ہے اور خاص طور پر اپنے ان بندوں کے چھوٹے گناہوں کو جو ہر دم اپنے مولائے حقیقی کی رضا کی طلب میں لگے رہتے ہیں اور کبھی کبھار کوئی چھوٹا گناہ ان سے سر زد ہوجاتا ہے۔ اس لئے لوگو ! تم اپنی پاکی نہ بیان کرو اور یہ نہ کہو کہ ہم تو گناہوں سے بالکل پاک صاف ہیں۔ اللہ کو تمہارے بیان کئے بغیر خوب معلوم ہے کہ اس سے ڈرنے والا کون ہے۔ احمد، مسلم اور ابوداؤ د نے زینب بنت ابی سلمہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ان کا نام ” برۃ“ یعنی پاکیزہ رکھا گیا تو رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا :” تم لوگ اپنی پاکی نہ بیان کرو، اللہ کو خوب معلوم ہے کہ پاکیزہ کون ہے۔ اس کا نام ” زینب“ رکھو۔ “ اور صحیحین میں ابوبکر (رض) سے مروی ہے کہ ایک شخص نے کسی دوسرے کی نبی کریم (ﷺ) کے سامنے تعریف کی، تو آپ نے بار بار فرمایا کہ ” تمہارا برا ہو، تم نے اپنے دوست کی گردن کاٹ دی، اگر کسی کی تعریف کرنی ضروری ہو، تو یوں کہو کہ میں فلاں کو ایسا سجھتا ہوں اور اللہ اس کے حال سے خوب واقف ہے اور میں اللہ کے علم کے ہوتے ہوئے کسی کی پاکی نہیں بیان کرتا ہوں۔ میرا خیا ہے کہ فلاں آدمی ایسا ایسا ہے۔ “