مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ
جو کچھ بھی پیغمبر کی آنکھوں نے دیکھا، دل نے اس کے سمجھنے میں غلطی نہیں کی
(6) نبی کریم (ﷺ) نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جبریل (علیہ السلام) ان کے پاس ان کے رب کی وحی لے کر آئے اور ان کے دل نے بھی اس کی تصدیق کی اور یقین کرلیا کہ یہ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتہ جبریل ہیں جو اللہ کی وحی لے کر آئے ہیں، یہ کوئی شیطانی خیال نہیں ہے یعنی کان، آنکھ اور دل تینوں اس پر متفق تھے کہ جبریل ہیں جو وحی الٰہی لے کر آئے ہیں۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس آیت میں مراد اللہ کی وہ عظیم الشان نشانیاں ہیں جن کا مشاہدہ نبی کریم (ﷺ) نے معراج کی رات میں کیا تھا اور جن کا ان کے دل نے بھی یقین کرلیا تھا۔ اور بعض نے اس سے یہ سمجھا ہے کہ نبی کریم (ﷺ) نے شب معراج میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا اور ہم کلام ہوئے تھے، لیکن صحیح یہی ہے کہ آیت میں مراد جبریل (علیہ السلام) کی رؤیت ہے آپ (ﷺ) نے جبریل کو ان کی اصلی صورت میں دوبارہ دیکھا تھا پہلی بار بعثت کے کچھ ہی دنوں کے بعد آسمان دنیا کے نیچے افق کی بلندیوں میں دیکھا جس کا ذکر اس آیت میں آیا ہے اور جو آیات (8/9) کی تفسیر میں بیان کیا جا چکا ہے، جبریل (علیہ السلام) کو آنکھوں سے دیکھا اور دوسری بار شب معراج میں ساتویں آسمان پر دیکھا، جس کا ذکر آیت (13) کی تفسیر میں آئے گا۔