سورة الفتح - آیت 29

مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور وہ لوگ جوان دشمنان حق کے مقابلے میں نہایت سخت مگر (٧) آپس میں نہایت رحم دل ہیں انہیں تم ہمیشہ اللہ کے آگے عالم رکوع وسجود میں پاؤ گے کہ اللہ کے فضل اور خوشنودی کے طالب ہیں ان کی پیشانیوں پر کثرت سجود کی وجہ سے نشان بن گئے ہیں یہی وہ جماعت ہے جسے تورات وانجیل میں ایک کھیتی سے تمثیل دی ہے کہ اس نے پہلے زمین سے ایک کونپل نکالی پھر اس نے غذائے نباتی کو ہوا اور مٹی سے جذب کرکے اس کونپل کو قوی کیا، پس وہ بتدریج بڑھتی اور موٹی ہوتی گئی یہاں تک کہ وہ کھیتی اپنی نال پرسیدھی کھڑی ہوگئی اور اپنی سرسبزی اور شادابی سے کسانوں کو خوشی بخشنے لگی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ ترقی انہیں اس لیے عطا کی کہ کفار اسے دیکھ کر غصے میں جلیں، اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے وعدہ فرماتا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور اعمال صالحہ اختیار کیے کہ ان کے لیے مغفرت اور اجرعظیم ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(20) اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے گواہی دی ہے کہ اسی نے نبی کریم (ﷺ) کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے۔ اسی کی مزید تاکید کے طور پر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، اور آپ کے لئے یہ گواہی دینا گویا آپ کے لئے ہر وصف جمیل کی گواہی ہے، اس لئے کہ اللہ کے رسول تمام اخلاق کریمہ اور صفات سے متصف ہوتے ہیں۔ پھر آپ کے صحابہ کرام کی تعریف کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ وہ کافروں کے لئے ایسے ہی سخت ہوتے ہیں جیسے شیر اپنے شکار کے لئے سخت ہوتا ہے اور آپس میں ایک دوسرے کے لئے نہایت ہی رحم دل ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کی تعریف میں سورۃ المائدہ آیت (54) میں فرمایا ہے : ” وہ مومنوں کے لئے مانند ! بریشم نرم وتے ہیں اور کافروں کے لئے سخت ہوتے ہیں۔ “ مخلوق کے ساتھ ان کا معاملہ ایسا ہوتا ہے اور خالق کے ساتھ ان کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے رب کی جنت اور اس کی خوشنودی کے لئے کثرت سے نماز پڑھتے ہیں اور اللہ کے ان نیک بندوں کی نشانی، کثرت سجود اور کثرت تہجد و نوافل کی وجہ سے ان کی پیشانیوں پر پائی جاتی ہے اور صحابہ کرام کی یہ نشانی انجیل اور تورات میں بھی پائی جاتی ہے۔ کے اعراب کے بارے میں دورائے ہے : مبتدا ہے، اور ” کزرع“ اس کی خبر ہے اور معنی یہ ہے کہ انجیل میں ان کی مثال پودے کی ہے الخ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ Ĭ پر معطوف ہے اور ” کزرع“ مبتدا محذوف کی خبر ہے، جس کی تقدیر ” ھم کزرع“ ہے اور معنی یہ ہے کہ صحابہ کی مثال اس پودے کی ہے جو زمین سے اپنی کونپل نکالتا ہے، پھر وہ بڑھ کر درخت بن جاتا ہے، پھر درخت موٹا ہوجاتا ہے، پھر وہ اپنے تنے پر کھڑا ہوجاتا ہے، جسے دیکھ کر کاشتکار خوش ہوتا ہے۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس مثال کے ذریعہ صحابہ کرام کی حالت بیان کی ہے کہ ابتدا میں ان کی تعداد کم ہوگی، پھر ان کی تعداد بڑھتی جائے گی، اور وہ پودے کے مانند قوی سے قوی تر ہوتے جائیں گے اور ایسا اس لئے ہوگا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی کثرت و قوت کے ذریعہ کافروں کے غیظ و غضب میں اضافہ کرے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ نے اپنے ان نیک بندوں سے جنہیں صحابہ رسول کہا جاتا ہے اور جن کے لئے اللہ نے ایمان اور علم صالح کی گواہی دی ہے، وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کے گناہوں کو معاف کر دے گا اور انہیں اجر عظیم یعنی جنت عطا فرمائے گا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ امام مالک نے ” تاکہ اللہ ان کے ذریعہ کافروں کے غیظ و غضب میں اضافہ کرے“ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان روافض کی تکفیر کی ہے جو صحابہ کرام سے بغض رکھتے ہیں اور کہا ہے کہ روافض صحابہ سے بغض رکھتے ہیں اور جو صحابہ سے بغض رکھے گا وہ اس آیت کے مطابق کافر ہوگا امام مالک کی اس رائے سے علماء کی ایک جماعت نے اتفاق کیا ہے۔ وباللہ التوفیق