الَّذِينَ قَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ وَقَعَدُوا لَوْ أَطَاعُونَا مَا قُتِلُوا ۗ قُلْ فَادْرَءُوا عَنْ أَنفُسِكُمُ الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے (شہید) بھائیوں کے بارے میں بیٹھے بیٹھے یہ باتیں بناتے ہیں کہ اگر وہ ہماری بات مانتے تو قتل نہ ہوتے، کہہ دو کہ : اگر تم سچے ہو تو خود اپنے آپ ہی سے موت کو ٹال دینا۔
انہی منافقین کے بارے میں جو مقام شوط سے واپس چلے گئے تھے، کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں بیٹھ گئے، اور اپنی نجی مجلسوں میں کہنے لگے، کہ اگر وہ لوگ ہماری بات مانتے اور باہر نہ نکلتے تو قتل نہ کیے جاتے، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے کہا، آپ ان سے کہئے اگر تمہارا دعوی صحیح ہے کہ تم موت کو ٹال سکتے ہو، تو ذرا اپنی موت کو ٹال کر دکھاؤ، چونکہ وہاں تمہارا قتل ہونا اللہ کی تقدیر میں نہیں لکھا تھا، اس لیے تم وہاں قتل نہیں ہوئے، تمہارے گھروں میں بیٹھ جانے سے تمہاری تقدیر نہیں بدل گئی، حافظ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں، واقعہ احد کی ایک حکمت یہ بھی تھی کہ منافقین نے ازخود اپنے دل کی بات کہی، جسے مسلمانوں نے سنا، اور اللہ نے جو جواب دیا، اسے بھی مسلمانوں نے سنا، اور نفاق اور اس کے انجام کو جانا، کہ کس طرح منافق دنیا و آخرت کی نیک بختیوں سے محروم ہوجاتا ہے اور ہر بدبختی اسے گھیر لیتی ہے۔