وَمَا أَصَابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيَعْلَمَ الْمُؤْمِنِينَ
اور تمہیں جو مصیبت اس دن پہنچی جب دونوں لشکر ٹکرائے تھے، وہ اللہ کے حکم سے پہنچی، تاکہ وہ مومنوں کو بھی پرکھ کر دیکھ لے۔
یہ اور اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ معرکہ احد میں جب مؤمنین اور کفار کی مڈبھیڑ ہوئی، اور تمہیں مصیبت لاحق ہوئی، تو وہ اللہ کی تقدیر کا نتیجہ تھا، تاکہ صادق الایمان مسلمانوں کی حقیقت کھل کر سامنے آجائے، اور ان منافقین کا بھی پتہ چل جائے جو اللہ، اس کے رسول اور مسلمانوں کے ساتھ اپنی دوستی کا دم بھرتے تھے، حالانکہ ان کے دل کفر اور اللہ اور اس کے رسول کی عداوت سے بھرے ہوئے تھے، اور جب ان سے کہا گیا کہ آؤ اللہ کی راہ میں جہاد کرو، یا کم از کم بظاہر ہی سہی مسلمانوں کی تعداد تو بڑھاؤ، تو انہوں نے کہا کہ اگر ہم جانتے کہ واقعی یہ جنگ ہے اور شہر سے باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہئے، تو ہم تمہارا ساتھ دیتے، لیکن تمہارا یہ فیصلہ تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ یہ عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کی طرف اشارہ ہے، جب مقام شوط سے ایک تہائی کی تعداد میں منافقین، عبداللہ بن ابی کی بات مانتے ہوئے مسلمانوں کی فوج سے الگ ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔