سورة محمد - آیت 18

فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَن تَأْتِيَهُم بَغْتَةً ۖ فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُهَا ۚ فَأَنَّىٰ لَهُمْ إِذَا جَاءَتْهُمْ ذِكْرَاهُمْ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر کیا یہ لوگ آخری فیصلہ کردینے والی گھڑی کے منکر ہیں کہ اچانک ان پر آنانازل ہو؟ سواگر اسی کا انتظار ہے تو اس کی نشانیاں تو آچکیں (٤) اور جب وہ گھڑی خود آئے گی تو اس وقت ان کے لیے کیا ہوگا۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(9) اہل کفر کی ہٹ دھرمی سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اب انہیں اسی کا انتظار ہے کہ اچانک قیامت آجائے، تو وہ جان لیں کہ اس کی علامتیں ظاہر ہونے لگی ہیں، حسن بصری اور ضحاک کہتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) کی بعثت قرب قیامت کی ایک بڑی نشانی ہے صیحین میں انس بن مالک (رض) سے مروی ہے، رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ میری بعثت اور قرب قیامت کی مثال ان دو انگلیوں کی مانند ہے اور آپ نے بیچ کی انگلی اور شہادت کی انگلی کی طرف اشارہ کیا یعنی جس طرح یہ دونوں انگلیں ایک دوسرے سے قریب ہیں، اسی طرح میں قیامت کے بالکل قریب بھیجا گیا ہوں۔ نبی کریم (ﷺ) نے متعدد احادیث میں قرب قیامت کی نشانیاں بتائی ہیں، جن میں بعض کا ظہور ہوچکا ہے اور بعض ابھی تک ظاہر نہیں ہوئی ہیں۔ بعض حضرات نے اس آیت میں مذکور نشانیوں میں شق قمر (چاند کے دو ٹکڑے ہونے) اور دھواں کے ظہور کو بھی شمار کیا ہے اور بعض دوسرے لوگوں نے دوسری نشانیوں کا ذکر کیا ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب قیامت آجائے گی، اس وقت ماضی کو یاد کر کے افسوس کرنے سے کافروں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا، اس لئے کہ وہ وقت عمل کا نہیں، بلکہ مکافات عمل کا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفجر آیت (23) میں فرمایا ہے : ﴿يَوْمَئِذٍ يَتَذَكَّرُ الْإِنْسَانُ وَأَنَّى لَهُ الذِّكْرَى﴾ ” اس دن انسان کو سمجھ آئے گی، مگر تب اس کے سمجھنے کا کیا فائدہ؟“۔