وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَغُلَّ ۚ وَمَن يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اور کسی نبی سے یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ مال غنیمت میں خیانت کرے۔ (٥٥) اور جو کوئی خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن وہ چیز لے کر آئے گا جو اس نے خیانت کر کے لی ہوگی، پھر ہر شخص کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔
110۔ ابو داود اور ترمذی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ میدان بدر میں ایک سرخ چادر کھو گئی، تو کسی نے کہا کہ شاید رسول اللہ (ﷺ) نے لے لیا ہے، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ حافظ ابن مردویہ رحمہ اللہ نے ابن عباس (رض) سے ہی روایت کی ہے کوئی چیز کھو گئی تو بعض منافقین نے رسول اللہ (ﷺ) کو متہم کیا تو یہ آیت نازل ہوئی، جس سے مقصود نبی کریم (ﷺ) کی رفعت شان اور ان کی عصمت کی شہادت دینی ہے۔ اس کے بعد اللہ نے خیانت کی وعید بیان کی، کہ خائن آدمی قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ خیانت کا مال اس کی گردن پر ہوگا، تاکہ محشر والوں کے سامنے اس کی رسوائی ہو۔ بخاری و مسلم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ایک دن خیانت کے بارے میں بات کی اور اسے بہت ہی زیادہ اہمیت دی، پھر کہا، ایسا نہ ہو کہ تم میں سے کوئی قیامت کے دن میرے سامنے اس حال میں آئے کہ اس کی گردن پر اونٹ ہو جو چیخ رہا ہو، اور وہ کہے کہ یارسول اللہ ! میری مدد کیجیے تو میں کہوں گا کہ آج میں کچھ نہیں کرسکتا، میں نے تمہیں تنبیہہ کردی تھی، اس کے بعد آپ نے اسی طرح گھوڑے، بکری آدمی اور زمین کے ٹکڑوں کا ذکر کیا، اور ہر بار یہی بات دہرائی کہ میں کہوں گا، آج میں کچھ نہیں کرسکتا۔